سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے چودہ سال قبل ایک لڑکے کو گود لیا تھا، زید چونکہ سرکاری ملازم ہے اس لئے مصلحتاً ولدیت کی جگہ زید نے اپنا نام لکھوایا تھا، تاکہ آئندہ اس کا کچھ فائدہ ہوجائے لیکن اب اس کے حقیقی والد اعتراض کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سرکاری و غیر سرکاری کاغذات سے یہ نام نکال کر حقیقی والد کے نام کا اندراج کروایا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو مذکورہ لڑکا سرکاری فوائد سے محروم ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں شرعی حکم مطلوب ہے ؟
جواب : غیر کی اولاد کو اپنی اولاد بتانا شرعاً جائز نہیں۔ اس لئے زید نے متبنی کے نام کے ساتھ اس کے حقیقی والد کے بجائے جو اپنا نام لکھوایا ہے وہ شرعاً گناہ ہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے۔ ادعوھم لآبائھم ھواقسط عنداﷲ (سورۃ الاحزاب آیت ۵)۔ اب مذکورہ در سوال سرکاری و غیر سرکاری کاغذات میں تبدیلی کرواکر حقیقی والد کا نام لکھوایا جاسکتا ہے تو ایسا کیا جانا لازمی ہے۔ اور اگر اس میں کوئی دشواری ہو تو ہر موقع پر اس کا اظہار کردینا ضروری ہے کہ یہ لڑکا فلاں کا بیٹا ہے اور اس طرح غلط نام کا اندراج کروانے کی وجہ زید عنداللہ گنہگار ہوں گے، اس پر ان کو توبہ کرنا چاہئے۔
اذان سے قبل درود شریف
اور جمعہ کی اذان ثانی
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان و اقامت سے پہلے درود شریف بلند آواز سے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کو چھوڑ دینے سے اذان و اقامت کی صحت میں کچھ فرق آئے گا ؟
۲۔ نیز جمعہ کے دن اذان ثانی منبر کے روبرو دینی چاہئے یا مسجد کے باب الداخلہ پر ؟
جواب : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں، قبل اذان درود شریف پڑھنا اگرچہ متقدمین سے بھی ثابت نہیں اور نہ کتب فقہ میں اس کی صراحت ہے، لیکن حکم ’’صلوا علیہ وسلموا تسلیما‘‘ عام ہے، اس لئے ممنوع، ناجائز اور حرام نہیں کہہ سکتے، تاہم اذان و اقامت کے الفاظ میں کوئی زیادتی سمجھ میں نہ آئے، اس لئے آہستہ درود پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ اذان و اقامت کے الفاظ حدیث سے جس طرح ثابت ہیں، ان میں زیادتی نہیں ہونی چاہئے، اس لئے اذان و اقامت سے قبل درود شریف نہ پڑھیں تو نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
۲۔جب خطیب جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جائے تو منبر کے روبرو اذان ثانی دی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور شیخین رضوان اللہ علیہما کے دور خلافت میں یہی ایک اذان تھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خارج مسجد پہلی اذاں رائج فرمائی۔ ہدایہ کے باب الجمعہ میں ہے: (واذا صعد الامام المنبر جلس واذن المؤذن بین یدی المنبر) بذلک جری التوارث ولم یکن علی عہد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الا ھذا الاذان۔ اور ہدایہ کے حاشیہ میں ہے: قولہ ولم یکن الخ اخرج الجماعۃ الا مسلما عن السائب بن یزید قال کان النداء یوم الجمعۃ اولہ اذا جلس الامام علی المنبر من عھد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر رضی اﷲ عنہما فلما کان زمن عثمان و کثر الناس زاد النداء۔ اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ ۹۴۱ میں ہے: واذا جلس علی المنبر اذن بین ید یہ واقیم بعد تمام الخطبۃ بذلک جری التوارث کذا فی البحرالرائق۔ نیز نور الایضاح میں خطبہ کے سنن کے تحت لکھا ہے: والاذان بین یدیہ کالاقامۃ۔
پس صورت مسئول عنہا میں اذان و اقامت سے قبل درود شریف آہستہ پڑھ سکتے ہیں اور جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد منبر کے سامنے دی جانی چاہئے۔ اسی پر قدیم سے امت کا عمل ہے۔ فقط واﷲ أعلم بالصواب