غیر منقسم آندھرا پردیش میںکانگریس کو بھاری نقصان

سیما آندھرا اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں۔ تلگودیشم کو نائیڈو کی امیج سے فائدہ ۔ کے سی آر کے وعدے ٹی آر ایس کیلئے موثر

حیدرآباد 17 مئی ( پی ٹی آئی ) تلگودیشم اور ٹی آر ایس نے سیما آندھرا اور تلنگانہ میں شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جبکہ غیر منقسم آندرھا پردیش میں کانگریس پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد نے سیما آندھرا کی 175 رکنی اسمبلی میں 106 نشستیں حاصل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ یہ تعداد سیما آندھرا میں حصول اقتدار کیلئے درکار 88 نشستوں سے 18 زیادہ ہے ۔ یہاں وائی ایس آر کانگریس نے پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات کا سامنا کرتے ہوئے 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ کانگریس نے آندھرا پردیش کی 57 سال کی تاریخ میں چار دہوں تک ریاست پر حکمرانی کی ہے اور اب اسے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سیما آندھرا کی جو اسمبلی تشکیل پائیگی اس میں کانگریس کی ایک بھی نمائندگی نہیں ہوگی ۔ ریاست میں ہوئے انتخابات میں چار سابق وزرا وی کشور چندر دیو ‘ ایم ایم پلم راجو ‘ پناباکا لکشمی اور کلی کروپا رانی کے علاوہ آندھرا پردیش کانگریس کمیٹی کے موجودہ صدر این رگھو ویرا ریڈی اور سابق صدر بوتسہ ستیہ نارائنا کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ تو یہاں اپنی ضمانت بھی نہیں بچاسکے ۔ تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کیلئے انتخابات میں کامیابی بہت شاندار رہی ہے کیونکہ اس اتحاد نے نہ صرف ساحلی آندھرا میں بلکہ رائلسیما علاقہ میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مغربی گوداوری جیسے اضلاع میں تلگودیشم نے شاندار مظاہرہ کیا ہے اور یہاں اس نے تمام اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔

ساحلی آندھرا میں نسبتا کمزور موقف رکھنے والی بی جے پی نے بھی یہاں کچھ کامیابی حاصل کی ہے اور اس نے وشاکھا پٹنم اور نرساپورم لوک سبھا حلقوں پر جیت درج کروائی ہے ۔ غیر منقسم آندھرا پردیش میں تلگودیشم نے 29.1 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ بی جے پی کو 8.5 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ وائی ایس آر کانگریس نے 28.9 اور ٹی آر ایس نے 14 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں ۔ کانگریس کو صرف 11.6 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ تلگودیشم بی جے پی اتحاد کو نئی آندھرا پردیش ریاست میں مودی کی لہر سے فائدہ ہوا ہے جبکہ کانگریس کے خلاف ناراضگی کی لہر نے بھی اسے فائدہ پہونچایا ہے ۔ علاوہ ازیں وائی ایس آر کانگریس کے خلاف کرپشن کے الزامات کے نتیجہ میں بھی اسی اتحاد کو فائدہ حاصل ہوا ہے ۔ تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو کی ترقی پسند اور سخت منتظم لیڈر کی امیج سے بھی سیما آندھرا میں رائے دہندے متاثر ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نائیڈو تقسیم کے بعد ریاست کو ترقی دینگے ۔ اس اتحاد کو تلگو اداکار پون کلیان کے انتخابی مہم میں حصہ لینے کا بھی فائدہ ہوا ہے جو نریندر مودی کے حامی ہیں۔

کانگریس کو تلنگانہ میں زیادہ جھٹکہ لگا ہے جہاں اسے یہ اندازہ تھا کہ علیحدہ ریاست تشکیل دینے کے دعوی پر اقتدار حاصل ہوگا تاہم ایسا نہیں ہوسکا ہے ۔ کانگریس کو تلنگانہ میں 21 نشستوں پر کامیابی ملی ہے اور وہ ریاست میں اصل اپوزیشن جماعت رہیگی جبکہ ٹی آر ایس کو 63 نشستوں پر کامیابی ملی ہے ۔ گذشتہ ایک دہے سے علیحدہ ریاست کے مطالبہ پر احتجاج چلانے والے ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے نئی ریاست میں ترقی کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ انہوں نے علیحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد کانگریس میں اپنی پارٹی کے انضمام اور اتحاد سے بھی انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس نے علیحدہ ریاست کی تشکیل میں تاخیر کی ہے ۔ تلنگانہ کانگریس میں کسی قد آور قیادت کی کمی نے کانگریس کی شکست میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ٹی آر ایس سربراہ نے سارے تلنگانہ میں ہنگامی دورے کئے ‘ کئی وعدے کئے اور مسلمانوں کیلئے تحفظات ‘ کسانوں کیلئے قرض کی معافی اور غریبوں کیلئے دو کمروں کے مکان کی فراہمی کے وعدے نے ٹی آر ایس کو کامیابی دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔