حیدرآباد ۔ 25 ۔ فروری (سیاست نیوز) شہر میں بعض قاضیوں کی جانب سے غیر شرعی طور پر کنٹراکٹ میریجس کے خلاف پولیس کارروائیوں کے باوجود اس طرح کی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف بورڈ کے پاس قاضیوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے کوئی نظم نہیں اور نہ ہی عہدیداروں کو اس سلسلہ میں کوئی دلچسپی ہے جس کے سبب غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد بلا خوف و خطر آزاد گھوم رہے ہیں۔ وقف بورڈ اور دارالقضاۃ کو وقفہ وقفہ سے مختلف علاقوں کے افراد پہنچ کر بعض افراد کی جانب سے کنٹراکٹ میریجس انجام دینے کی شکایات کر رہے ہیں لیکن وقف بورڈ کے پاس قاضیوں پر نگرانی یا انہیں جوابدہ بنانے کا کوئی نظم نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حالیہ عرصہ میں پولیس نے جن تین نائب قاضیوں کو گرفتار کرتے ہوئے کنٹراکٹ میریجس کو بے نقاب کیا تھا، وہ افراد دوبارہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکے ہیں۔
وقف بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ بعض نائب قاضی اور قاری النکاح کی سرپرستی میں شہر میں کنٹراکٹ میریجس کا ریاکٹ سرگرم ہے۔ یہ لوگ بیرونی ممالک سے آنے والے افراد کے کنٹراکٹ میریج انجام دیتے ہیں جو غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔ اس طرح کی شادیوں کیلئے کوئی نکاح نامہ جاری نہیں کیا جاتا اور اس ریاکٹ میں ملوث افراد شادیوں کیلئے غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو فراہم کرتے ہیں۔ حکومت اور وقف بورڈ اس معاملہ میں بے بس ہے کیونکہ خاطیوں کے خلاف کارروائی اور قاضیوں کو جوابدہ بنانے کیلئے باقاعدہ کوئی نظم نہیں۔ وقف بورڈ کے عہدیدار خود بھی اپنی بے بسی پر مایوسی کا شکار ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر میں انجام دی جانے والی کنٹراکٹ میریجس میں زیادہ تر افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ ابتداء میں خلیجی ممالک کے افراد بھی اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث تھے ۔ تاہم سعودی عرب اور عمان کی حکومتوں نے ہندوستان میں شادی کیلئے اپنے شہریوں کو حکومت سے اجازت حاصل کرنے کو لازمی قرار دیدیا ۔ ان دونوں ممالک کے افراد وہاں کی حکومتوں سے باقاعدہ اجازت نامہ کے ساتھ حیدرآباد پہنچتے ہیں اور ان کی شادی انجام دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے بھی شادی کے اجازت نامہ کو لازمی قرار دے۔ وقف بورڈ کے عہدیداروں کا جب تک نائب قاضیوں اور قاری النکاح کو جوابدہ نہیں بنایا جائے گا ۔ اس وقت تک اس طرح کی سرگرمیوں پر قابو پانا مشکل رہے گا۔ قاضی کے تقرر اور برخاستگی کا اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ تاہم ہر قاضی کے تحت نائب قاضی اور قاری النکاح کے تقرر پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی ان کی تعداد سے وقف بورڈ کو واقف کرایا جاتا ہے جس کے سبب اکثر نائب قاضی یا قاری النکاح غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں۔ اگر قاضی کو پابند کیا جائے کہ وہ نائب قاضی اور قاری النکاح کے تقرر کی وقف بورڈ سے منظوری حاصل کریں تو یہ کنٹراکٹ میریجس کو روکنے کیلئے اہم رول ثابت ہوگا۔ ایسی صورت میں نائب قاضی کی غلطی پر قاضی کو معطل کیا جاسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں جملہ 13 قاضی ہیں جن میں 4 ہائی کورٹ کے احکامات سے ایڈیشنل قاضی مقرر کئے گئے ہیں۔ ہر ایک قاضی کے تحت کئی نائب قاضی یا قاری النکاح ہیں۔ کنٹراکٹ میریجس میں ملوث افراد کی نائب قاضیوں سے ملی بھگت رہتی ہے اور وہ نکاح نامہ فراہم کرتے ہیں۔ اسی دوران ناظر القضاۃ قاضی اکرام اللہ نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ قاضیوں کیلئے رہنمایانہ خطوط مرتب کریں تاکہ انہیں جوابدہ بنایا جاسکے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کسی بھی بیرونی شخص کی شادی کیلئے وقف بورڈ سے اجازت نامہ کو لازمی قرار دیا جائے یا پھر پولیس سے این او سی حاصل کرنے کی شرط رکھی جائے۔