فلسطین کی سرزمین پر 14 مئی 1948 کو یہودیوں کو بسانے کے بعد سے اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ ناپاک عزائم کو بروے کار لاتے ہوئے فلسطینیوں کو خود ان کی سرزمین پر سکیڑ کر رکھدیا ہے اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی جان و مال کو تباہ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے ۔ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کے قیام کے دوران پیر کے دن احتجاج کرنے والے نہتے فلسطینیوں پر گولہ باری کرتے ہوئے اسرائیل نے 60 سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کو ہلاک کردیا ۔ اسرائیل ، غزہ سرحد پر انسانی جانوں کے ہوئے نقصانات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس خطہ میں قیام امن کی توقع کو دفن کرنے والی یہودی حکومت نے فلسطین سرزمین پر اپنی خون ریز کارروائیوں میں مزید ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔ مشرق وسطی میں یہودیوں کی زیادتیوں کی تاریخ میں سب سے بدترین دن تھا ۔ اسرائیل کے مقبوضہ علاقہ پر کھڑی کردہ رکاوٹوں کے قریب جب 35000 غزہ باشندوں نے مارچ نکالا تو ان پر اپنی طاقت آزما کر انسانیت کو شرمسار کردیا ہے ۔ اسرائیل کی درندہ صفت کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت جنوبی افریقہ نے اپنے سفیر کو طلب کرلیا اور ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک سے چلے جانے کا حکم دیدیا ۔ ان حکومتوں ( جنوبی افریقہ اور ترکی ) نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ اپنی جارحیت کو فوری ختم کردے اور غزہ سے اپنی فوج کو ہٹالے ۔ اسرائیل نے ہمیشہ نہتے فلسطینیوں پر گولیاں چلائی ہیں ۔ اس سے پہلے بھی 2005 میں اسرائیل نے ایسا ہی خون ریز حملہ کیا تھا ۔ غزہ کا علاقہ اسرائیل اور مصر کی سرحدوں سے ملتا ہے اگرچیکہ مصر اور اسرائیل نے اس علاقہ پر بعض تحدیدات عائد کئے ہیں تاہم دونوں ممالک کے درمیان اشیاء کی منتقلی کا عمل برقرار ہے ۔ حماس نے اسرائیل کی غاصبانہ کارروائیوں کے خلاف احتجاجی مارچ نکالنے کی اپیل کی تھی جس کے بعد ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاجی اپنی سرزمین پر قابض طاقت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سرحد کی قریب مارچ کیا اور ان کو گولیوں سے نشانہ بنایا گیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ برطانیہ ، امریکہ ، فرانس اور دیگر ممالک نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اسرائیل اپنے قیام کی 70 ویں سالگرہ مناتے ہوئے فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے تو اس کو روکنے اور حالات پر قابو پانے میں عالمی طاقتیں ناکام ہوئی ہیں ۔ یہ ممالک اپنی دوہری پالیسی کے ساتھ فلسطینیوں کے مستقبل کو تاریک بنانے کے لیے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں ۔ مشرقی یروشلم یا بیت المقدس فلسطینیوں کا اہم مرکز ہے اور وہ مستقبل میں قائم ہونے والی مملکت کا دارالحکومت متصور کرتے ہیں ۔ امریکہ نے فلسطینیوں کو ہلاک کرنے والے اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے اس واقعہ کے لیے حماس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ زید رعدالحسین نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت کی شدید مذمت کی جب کہ امریکہ کے تعلق سے الزام عائد کیا ۔ یاد رہے کہ اس نے ہی اسرائیلی جارحیت پر چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے حالات کو نازک بنادیا ہے ۔ احتجاجیوں پر براہ راست فائرنگ کر کے ’ قتل عام ‘ کرنے والے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر شدید احتجاج ہونا چاہئے تھا لیکن اس طرح کی انسانی حقوق کی انتہائی شرمناک پامالی پر خاموشی اختیار کرلیا جانا انسانی المیہ سے کم نہیں ہے ۔ الزام ہے کہ یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کرتے ہوئے امریکہ نے اشتعال انگیز قدم اٹھایا ہے فلسطینی عوام اس علاقہ پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں جس پر اسرائیل 1967 سے قابض ہے ۔ یروشلم پر اسرائیل کا دعویٰ اور فلسطینیوں کے حقوق ہونے کی سچائی کے درمیان یہ علاقہ 7 ہزار برس سے خون آلود واقعات سے بھرا ہوا ہے ۔ اس علاقہ کو متنازعہ بنانے والوں نے انسانی جانوں کو ضائع کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ یروشلم کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے اسرائیل نے تنازعات کو مزید ہوا دی ہے ۔ عالمی ادارہ اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر امن پسند ممالک برسوں سے یہی کہہ رہے ہیں کہ یروشلم کی حیثیت میں کوئی تبدیلی صرف امن مذاکرات سے ہی ممکن ہے مگر اسرائیل نے ہمیشہ امن مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاج کیا ہے ۔