عورت کا بے نقاب، باہر جانا شرعًا جائز نہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدکے ایک دوست، ا پنے اہل و عیال کو بے نقاب باہر لیجاتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ عورت کی حیا اُس کی نگاہ میں ہوتی ہے۔ حجاب کوئی ضروری نہیں۔ کیا شرعی نقطۂ نظر سے بے نقاب باہر لیجانا درست ہے ؟
جواب: بالغ عورتوں کے لئے شرعایہ حکم ہے کہ وہ اجنبی لوگوں سے پردہ کریں۔ در مختار جلداول کتاب الصلوۃ صفحہ ۲۷۱میں ہے: (وللحرۃ) ولوخنثی (جمیع بدنھا) حتی شعرھا ا لنازل فی الاصح خلا الوجہ والکفین) فظھر الکف عورۃ علی المذھب (والقدمین) علی المعتمد۔ اور ردالمحتار میں ہے: و تمنع ا لمراۃ الشابۃ عن کشف الوجہ بین رجال لا لانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔
پس صورتِ مسئول عنہا میں اگر زید کے دوست اپنے اہل و عیال کو بے نقاب باہر لے جاتے ہیں تو اُن کا یہ عمل شرعا ًجائز نہیں۔ اور ان کا ادعا کہ عورت کی حیاء اس کی نگاہ میں ہوتی ہے۔ شرعاً باطل ہے۔

کرایہ دار معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص تقریباً تیرہ سال سے زید کا کرایہ دار ہے ۔اب وہ دوکان خالی کرنے کیلئے سات لاکھ روپئے کا مطالبہ کر رہا ہے، ورنہ وہ زید کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کو کرایہ پر اتار کر پگڑی کی رقم تین یا چار لاکھ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اس نے کرایہ نامہ کی تکمیل کے وقت ایک علحدہ معاہدہ تحریر کیا تھا، جس میں اس نے لکھا ہے کہ بوقتِ تخلیہ وہ راست مالک کو قبضہ دیدیگا۔ شریعت میںاس کیلئے کیا حکم ہے ؟
جواب: شرعاً کرایہ دار پر ازروے کرایہ نامہ و معاہدہ دوکان کو مالک کے حوالے کرنا لازم ہے۔ کسی قسم کے مالی مطالبہ کا کرایہ دار کو شرعاً کوئی حق نہیں ۔ کرایہ دار کا مالی مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں کسی دوسرے کو کرایہ پر دے کر اس سے رقم حاصل کرنے کاشرعاً کوئی حق نہیں ۔ کرایہ دار نے اجارہ کے معاملہ کے وقت مالک کو تخلیہ کے وقت راست قبضہ دینے کا معاہدہ تحریر کیا ہے جس کی پابندی اس پر’’ ان العھد کان مسؤلا‘‘ ( یقیناًعہد و پیمان سے متعلق باز پرس ہوگی ) کے تحت لازم ہے ۔ اگر وہ اس کی پابندی نہ کرے تو بفحوائے آیت کریمہ’’ ولا تنقضو الایمان بعد توکیدھا ‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل) اس کو عہد توڑنے کا بھی گناہ ہوگا۔
کسی معاہدہ کے بغیر کرایہ دار کا کسی اور کو کرایہ پر دینا دوسرے کے ملک میں تصرف کرنا ہے۔نیز اس سے مالی نفع حاصل کرنا قعطاً ناجائز ہے ۔ جیسا کہ عالمگیری جلد ۴ صفحہ ۴۵۴ میں ہے ’’ لا یجوز لرجل من اھل الاسلام قبض مال احد بلا وجہ شرعی ‘‘۔

زبانی ہبہ بالقبض
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کے شوہر نے اپنی حین حیات ان کا ایک مکان ہندہ کو زبانی ہبہ کر کے قبضہ میں دے دیا جس میں، ہندہ سات سال سے مقیم ہے۔ بعض لوگوں کو اعتراض ہیکہ زبانی ہبہ جائز نہیں۔اس بارے میں شریعت کاکیا حکم ہے ؟
جواب: صورتِ مسئول عنہا میں اگر ہندہ کے شوہر نے اپنی زندگی جو مکان ہندہ کو زبانی ہبہ کر کے قبضہ و تصرف میں دے دیا تو یہ ہبہ شرعاً درست ہے۔ اس مکان کی ہندہ مالکہ ہیں۔ جیسا کہ عالمگیری جلد۴صفحہ ۲۷۵ کتاب الھبۃ الباب الاول میں ہے: ’’وھبت ھذا الشئی لک او ملکتہ ( و جعلتہ تلک او ھذا لک او اعطیتک او نحلتک ھذا فھذا کلہ ھبۃ ‘‘ در مختار جلد۴ میں ہے: ’’و تتم الھبۃ بالقبض الکامل ‘‘ ۔ فقط واﷲأعلم