عوام کی سطح پر ذہن سازی

زہر کا ازالہ ہی وقت کا تقاضہ ہے
صرف چند تقریریں کام کر نہیں سکتیں
عوام کی سطح پر ذہن سازی
پارلیمانی انتخابات کی آنکھیں بتارہی ہیں کہ اقتدار کی لالچ نے لیڈروں کو دیوانہ بنادیا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ملک کا ہر رائے دہندہ ان کے حق میں ووٹ دینے کے لئے ہاتھوں میں ووٹ تھامے رکھا ہے۔ اس انتخابی مہم میں سب سے زیادہ جلسوں سے خطاب کرنے والوں میں بی جے پی امیدوار نریندر مودی ہیں۔ کانگریس کے قائدین کی انتخابی مہم پر کئی تبصرے ہوچکے ہیں۔ راہول گاندھی کو سہارا دینے کیلئے ان کی بہن پرینکا گاندھی کو جب انتخابی میدان میں اتارا گیا تو کانگریس کے جلسوں کی کیفیت بھی تبدیل ہوگئی۔ انتخابی مہم صرف لیڈر کی موضوعاتی تقریر اور بیانات پر محیط ہوتی ہے مگر ان دنوں بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نے جملہ 5827 ریالیوں، جلسوں، پروگراموں اور چائے پرچ چرچہ کے علاوہ 3D ریالیوں سے خطاب کیا جبکہ کنگریس قائدین نے جلسہ کسی گنتی میں شمار نہیں کئے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ بی جے پی کے امیدواروں کو اپنے رائے دہندوں تک پہنچنے میں آسانی ہوئی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں مودی کے جلسے منعقد کئے گئے اس پر اب بی جے پی کو کوئی شبہ نہیں ہیکہ اس کی انتخابی مہم کا فائدہ ضرور ہوگا۔ اب انتخابات کے صرف دو مرحلے باقی ہیں اس پر بی جے پی نے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کیا ہیکہ اس نے ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر مہم چلا کر جمہوریت کی بڑی انتخابی تاریخ رقم کی ہے اس کا سہرا نریندر مودی کے سر جاتا ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں بی جے پی نے نریندر مودی کو جب اپنا وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تو تب سے اب تک مودی نے بڑے پیمانے پر انتخابی مہم بھی شروع کردی۔ 15 ستمبر 2013ء کو انہوں نے پہلے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کی مہم شروع کی تو یہ جذبہ اور کوشش 10 مئی 2014ء تک یعنی لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے کی رائے دہی تک جاری رکھنے کا بھی عہد کیا تھا۔ جموں تا کنیا کماری اور امرلی تا اروناچل پردیش تک بی جے پی کی ریالیوں نے رائے دہندوں کی سوچ کو تبدیل کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے مگر اس کے برعکس کانگریس نے کوئی مؤثر ریالی کے انعقاد کو یقینی نہیں بنایا۔ پرینکا گاندھی نے جب پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لینا شروع کیا تو نریندر مودی کا تیزی سے پھیلتا اثر کسی حد تک زائل ہونے لگا۔ کانگریس کے کئی قائدین چاہتے ہیں کہ پرینکا گاندھی سرگرم سیاست میں حصہ لے کر کانگریس کے لئے بڑا رول کریں۔ الہ آباد میں ان کے حامیوں کی پوسٹر مہم اور جگہ جگہ بیانرس آویزاں کرکے کانگریس قیادت پر زور دینے کی کوشش کی گئی کہ اب پرینکا کو اہم رول ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ ’’ایک ناری سب پہ بھاری‘‘ کا نعرہ دیتے ہوئے اندرا گاندھی کی کرشماتی شخصیت کے احیاء پر توجہ دی جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہیکہ پرینکا کی آمد سے ان کے بھائی راہول گاندھی کے سیاسی منتقل پر گہن لگ جائے گا لیکن کانگریس کو فرقہ پرستوں پر بھاری پڑنے کیلئے ضروری ہیکہ پرینکا گاندھی کو سرگرم سیاست میں لایا جائے۔ ان میں عوام سے دوبدو متکلم ہونے کی خوبی پائی جاتی ہے۔ کانگریس قائدین کی یہ عین خواہش ہیکہ جلد یہ بدیر پرینکا کو پارٹی میں اہم عہدہ دے کر اس کی گرتی ساکھ کو بہتر بنایا جانا چاہئے۔ ان انتخابات میں جہاں ایک طرف نریندر مودی اپنی امیج بنانے کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کررہے ہیں وہیں پرینکا گاندھی نے چند ایک انتخابی جلسوں کے ذریعہ پارٹی کے حق میں انتخابی سماج باندھا ہے۔ مودی کی آندھی کو دیکھ کر کانگریس قائدین نے خاص کر کپل سبل کا یہ کہنا غور طلب ہیکہ ان کی پارٹی عوامی رابطہ میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس بیان سے کانگریس کے اندر کی کیفیت سے متعلق کچھ نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ عمومی طور پر حکمراں پارٹی پر انتخابات میں سرکاری مشنری کے بیجا استعمال کا الزام عائد کیا جاتا ہے مگر اس وقت ملک کا سیاسی نظریہ اشارہ دے رہا ہے کہ کانگریس کو اپنیشکست کا احساس بہت پہلے ہی ہوا ہے۔ اس کے باوجود اس نے فہم و فراست کے ذریعہ انتخابی حکمت عملی تیار نہیں کی۔ صرف ٹی وی کیمروں کو دیکھ کر انتخابات والی پرجوش تقریر کرنے رائے دہندوں کا ذہن تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک سیاسی بحث ہے کہ جاریہ انتخابات اور انتخابی مہم کا فائدہ کس نے اٹھایا اور کس طاقت نے رائے عامہ کے اخراج کے لئے عوام میں جرأت و ہمت کس نے پیدا کی؟