ہمارے بزرگوں نے غرور کو ’’علم کا چور‘‘ کہا ہے اور غرور کے دو معنی لکھے ہیں، ایک دھوکہ اور دوسرے بیہودہ بات۔ شیطان کو قرآن میں غرور کہا گیا ہے، یعنی دھوکہ باز۔ دھوکہ اس کا مقدر ہے، خود بھی فریب خوردہ ہے اور دوسروں کو بھی مبتلائے فریب رکھتا ہے۔ اس کو انسان پر اپنی برتری کا دھوکہ ہو گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی خلافتِ ارضی تو فرشتوں کی سمجھ میں بھی نہیں آرہی تھی، لیکن جیسے ہی اسماء الاشیاء پوچھ لئے گئے، فوراً بات سمجھ میں آگئی اور ’’سبحانک لاعلم لنا الا ماعلمتنا‘‘ کہہ کر بارگاہ خداوندی میں معذرت خواہ ہو گئے اور جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو فوراً سجدے میں گرپڑے، لیکن ابلیس نے انکار کردیا۔ وجہ انکار تکبر اور انانیت تھی، حالانکہ بڑائی نہ مٹی میں ہے نہ آگ میں، اناخیرٌمنہ کے تین لفظوں نے اس کی آگ کی مٹی پلید کردی، جس پر وہ فخر کر رہا تھا۔
آگ کی برتری کا تو اس نے ایک نامعقول اور بھونڈا بہانہ تراشا تھا، جس میں نہ کوئی گہرائی ہے اور نہ گیرائی، بس ایک سطحی سی نامعقول بات ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ابلیس ایک طویل عرصہ سے عالم ملکوت میں فرشتوں کے ساتھ رہ رہا تھا، جہاں وہ کچھ اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہو گیا تھا، بس اسی رازدانی کی وجہ سے وہ غرور علمی میں مبتلا ہو گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ خدا نے اپنے ہاتھوں سے مٹی کا ایک پتلا بنایا ہے، پھر اس کی صورت گری کی ہے، اس کے اعضاء اور قوتوں میں تناسب قائم کیا ہے، پھر اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک کر اس کو وجود بخشا ہے اور اس کو اپنا خلیفہ بناکر مجھ سے سجدہ کرایا جا رہا ہے، حالانکہ میں اس عالم ملکوت میں ایک طویل عرصہ سے رہ رہا ہوں، یہاں کے اسرارورموز سے واقف ہوں، یہاں کا ایک وسیع علم رکھتا ہوں، بھلا میں اس کو سجدہ کیوں کروں، یہ تو مجھ سے کئی گنا کمتر ہے۔ اصل گھمنڈ اس کو اسرارورموز سے واقف ہونے اور علم و دانش کا تھا۔ علامہ اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی ہے:
اسے صبح ازل ، انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا ، وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
یہ گمراہی اس کی اپنی غلط بینی کا نتیجہ تھی۔ شیطان کو گمراہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا شیطان نہیں آیا تھا، اس کے نفس نے اس کو گمراہ کیا تھا، لیکن اس بدبخت نے اپنی گمراہی کا الزام حق تعالیٰ پر رکھ دیا۔ اس کی جرأت نے نہ صرف اسے سجدہ سے انکار پر اُبھارا، بلکہ اس کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ حق تعالیٰ کو اپنی گمراہی کا ملزم قرار دے دیا۔ کوئی حد ہے اس بیہودگی کی؟ کہاں وہ ذاتِ پاک اور کہاں یہ الزام و خرافات!۔ گویا وہ رب العزت سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ حکم سجدہ دے کر تونے مجھے فتنہ میں ڈالا، میری عزت نفس مجروح کی اور مجھے نافرمانی پر مجبور کردیا، یعنی وہ چاہتا تھا کہ جس غرور علمی اور پوشیدہ غلط پندار میں وہ مبتلاء تھا، اس پر پردہ ہی پڑا رہتا اور اس کی نفسانیت بے نقاب و بدنام نہ ہوتی۔ اس طرح مکمل طورپر غرور میں مبتلا ہوکر وہ اپنی عاقبت خراب کربیٹھا اور غرور یعنی خود فریبی اور بیہودہ بات، دونوں کا مجرم ٹھہرا۔
اب یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ غرور ’’علم کا چور‘‘ کیوں ہے؟۔ علم ایک ایسا سمندر ہے، جس کی کوئی تہہ نہیں، ایک ایسا صحرا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ کوئی بھی شخص کبھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں نے سب کچھ معلوم کرلیا ہے، سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ عالم الغیب والشہادہ نے جب مخزن علم و حکمت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو، جنھیں اولین و آخرین کا علم دیا گیا تھا، جب یہ دعا سکھلائی کہ ’’اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘ تو ما و شما کس شمار میں؟۔ اس دعا کا مقصود طلب علم ہے، طلب ہی سے رسد جاری رہتی ہے، علم کی طلب اگر ختم ہو جائے تو علم کی آمد بھی رک جاتی ہے اور جب علم کی آمد رک جائے تو جو علم حاصل کیا جاچکا ہے، وہ بھی سڑکر گندا اور فاسد ہو جاتا ہے۔
میں نے بعض دیہاتی عورتوں کو پانچ چھ سال کی عمر کے بچوں کو دودھ پلاتے دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان بچوں کا دودھ نہ چھڑایا جائے تو وہ جوان ہونے تک بھی دودھ پیتے رہیں گے۔ جیسا کہ صاحب قصیدہ بردہ شریف نے بھی اپنے ایک شعر میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ یقیناً ماں کے سینہ میں دودھ آتا رہے گا۔ غور کیجئے! کہ اتنے عرصہ تک دودھ کیوں آتا رہے گا؟ اس لئے کہ بچہ دودھ پی رہا ہے، دودھ کی طلب باقی ہے، لہذا دودھ کی رسد بھی جاری رہے گی۔ یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ اگر سال چھ ماہ کی عمر میں بچے کا دودھ چھڑا دیا جائے تو ماں کے سینہ میں دودھ کا آنا بند ہو جاتا ہے، اس لئے کہ طلب ختم ہو گئی، لہذا رسد بھی رک جائے گی۔ اس پر بھی غور کرلیجئے کہ نہر کا پانی صاف اور شفاف کیوں ہوتا ہے، اس لئے کہ اس میں پانی کی آمد مسلسل جاری رہتی ہے، اس کے برخلاف جوہڑ کا پانی گندا اور فاسد اس لئے ہو جاتا ہے کہ اس میں پانی کی آمد نہیں ہوتی، بلکہ جو پانی پہلے سے موجود ہے، وہ بھی کچھ عرصہ میں سڑکر ختم ہو جاتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو اتنی کثرت سے عبادت کرتے کہ آپﷺ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے۔ ایک مرتبہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! آپ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں؟ جب کہ آپ معصوم ہیں‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ! کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟‘‘۔ غور کیجئے! کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شکرگزار بندہ کیوں بننا چاہتے تھے؟ اس لئے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے قانونِ نعمت سے اچھی طرح واقف تھے کہ شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپﷺ کو کوثر عطا کیا گیا، خیر کثیر ملا، لیکن پھر بھی آپﷺ ان نعمتوں میں اضافہ کے طلبگار تھے۔ اسی لئے آپ کو علم میں اضافہ کی دعا سکھلائی گئی، تاکہ آپ طلب جاری رکھیں تو علم میں اضافہ بھی جاری رہے۔ (اقتباس)