سید خواجہ محمود حسین
عظمت مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کے حوالوں سے سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اس آیت کریمہ کے مفہوم پر غور کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان (نبی) پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘۔ بے شک ایسا اور کوئی عمل نہیں، جو کہ اللہ تعالیٰ خود کرے اور ایمان والوں کو بھی تاکید کرے۔ یعنی تمام عبادتیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، جو کہ فرشتے اور اہل ایمان کرتے ہیں، لیکن حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی جب بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا کہ ’’بے شک یہ عمل اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی کرتے ہیں‘‘ اور ایمان والوں کو خاص طورپر یہ تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بھی یہ عمل ہمیشہ کرتے رہیں۔
عظمتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی سورتوں میں ذکر فرمایا ہے، تاکہ ایمان والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دل و جان سے مان لیں اور دونوں جہاں کی تمام نعمتوں سے (جو ان کو میسر ہیں) زیادہ آپ سے محبت کریں۔ یعنی اپنے ماں باپ، رشتہ دار، آل و اولاد، مال و دولت، سب سے زیادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں۔ سورہ والضحی میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہیکہ ’’تمہاری حالت ہر لمحہ ترقی پر ہے اور آئندہ کے لئے ہم وعدہ کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم تم کو دنیا و آخرت میں اتنی نعمتیں دیں گے کہ تم راضی ہو جاؤ گے‘‘۔ مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت دیکھئے کہ اس خوش خبری کو سن کر آپ نے فرمایا کہ ’’ہم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے، جب تک کہ ہمارا ایک بھی امتی دوزخ میں رہے گا‘‘۔ یہ ہمارے لئے آپ کی شفاعت اور نجات کا بہت بڑا پروانہ ہے۔
پھر اس سورۂ مبارکہ کی تفسیر میں یہ بیان ہوا ہے کہ ’’جو نعمتیں ہم نے تم کو دی ہیں، ان کی قدر و قیمت لوگوں کے سامنے خوب بیان کرو، تاکہ دوسرے لوگ بھی ہماری نعمتوں کے قدرداں ہوں، ان کے طلبگار بن کر انھیں حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ہماری بخشش سے مالا مال ہوں۔ خاص طورپر قرآن پاک کی اشاعت کی طرف پوری پوری توجہ کرو، کیونکہ یہ ہماری سب سے بڑی دولت ہے اور تقسیم کرنے کے لئے ہی تمہارے حوالے کی گئی ہے۔ اس دولت کو خوب لٹاؤ اور اس کا فیض عام کرو‘‘۔ یہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل قرآن پاک بھی ملا اور قرآن والا بھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اشاعت اسلام کا کام برابر آگے بڑھاتے رہے۔ مشکلات اور مخالفتوں کے ہجوم میں جب کہ ظاہری طورپر تسکین و تشفی کا کوئی سامان نہ تھا، سورۂ الم نشرح میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسکین و تشفی، آپ کے بلند مقام کا اعلان اور آئندہ کے لئے پیشین گوئی کی گئی۔ تفسیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے چند انعامات کا ذکر فرماکر آپ کی تسلی فرمائی۔ دوست اور دشمن سب کو آپ کے بلند مرتبہ سے آگاہ فرمایا۔ آپ کو اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں کو خوش خبری سنائی کہ حالات کتنے ہی دیگر گوں (مخالف) کیوں نہ ہوں، یقین رکھو کہ تمہارے دشمن ناکام ہوں گے۔ اسلام کی اشاعت کا کام بڑھتا رہے گا اور آپ کو فتح عظیم حاصل ہوگی اور ہم نے تمہارا ذکر بلند کیا۔ اللہ تعالی کو خاص طورپر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پاک اور اسم مبارک کو بلند کرنا منظور ہے اور اس نے فرش سے عرش تک آپ کا ذکر بلند کیا اور اس کا انتظام کئی طرح سے فرمایا۔ کلمہ طیبہ میں اللہ تعالی نے اپنے نام کے ساتھ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھا، جو اذان میں، اقامت میں، التحیات میں اور خطبہ میں لازمی طورپر پڑھا جاتا ہے۔آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسلمان اور مساجد ہیں، ہر مسجد سے روزانہ پانچ وقت کی اذانوں میں اللہ تعالی کے نام کے ساتھ جس نام کی پکار فضاء میں گونجتی ہے، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ہے۔ کروڑہا مسلمان اپنی نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔
اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور خوش خبری دینے کے لئے اور دشمنوں کی تنبیہ کے لئے سورہ کوثر نازل فرمائی۔ تفسیر میں ہے کہ کوثر سے ایک مراد ’’خیر کثیر‘‘ بھی ہے، اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دینی اور دنیوی، ظاہری اور باطنی ہر طرح کی نعمتیں اور برکتیں عطا فرمائی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کوثر سے مراد وہ حوض کوثر بھی ہے، جو محشر یا جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوگا، جس کے پانی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو سیراب کریں گے۔ پھر آگے ارشاد ہوتا ہے کہ آپ کا دشمن ہی ابتر ہوگا اور بے نام و نشان رہے گا۔ واضح ہو کہ آج تاریخ اس پیشین گوئی کی سچائی پر گواہ ہے۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بے نام و نشان ہیں، ان کا کوئی نام لیوا نہیں ہے، بلکہ انسانیت ان کے نام پر شرماتی ہے۔ جب کہ اس کے برخلاف عظمت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار اس طرح ہو رہا ہے کہ آپ کا اسم مبارک تمام ناموں کا سرتاج ہے، آپ کے نام لیوا ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی سیرت پاک لکھ کر شائع کرتے ہیں، دن رات مؤمن آپ کی شان میں صلوۃ و سلام اور نعتیں پڑھتے اور ماہ ربیع النور میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ عظمت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لئے سورۂ مدثر اور سورۂ نجم میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ یہ عظمت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج نہیں تو کیا ہے؟ کہ آپ نے بتایا کہ یہ قرآن ہے تو وہ قرآن ہوا اور جب آپ نے تشریحاً کچھ بیان فرمایا تو وہ حدیث پاک بن گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ شب معراج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہی کے پاس دوسری مرتبہ اصلی صورت میں دیکھا۔ سدرۃ المنتہی ساتویں آسمان پر گویا دونوں عالموں کے درمیان ایک سرحدی چوکی ہے۔ احکام الہی پہلے سدرۃ المنتہی پر نازل ہوتے ہیں، پھر وہاں سے فرشتے ان کو لیتے ہیں اور حسب ہدایت اس عالم پر جاری کرتے ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننے کے بعد ہمارے دل و دماغ میں اور بھی زیادہ عظمت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم بس جانا چاہئے اور ہمیں ہمیشہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتے رہنا چاہئے۔