قانون سخت کرکے یہ معلوم ہوگیا
ذہنیت بدلنا ہی جرم کو مٹاتا ہے
عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات
ملک بھر میں عصمت ریزی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے اور ان واقعات کے سلسلہ میں مختلف گوشوں سے مختلف طرح کے ر د عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ میں عصمت ریز کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا ہے ۔ ملک کی شائد ہی کوئی ریاست ایسی ہوگی جہاں روزآنہ کی اساس پر اس طرح کے واقعات پیش نہ آ رہے ہوں اور وہاں عوامی سطح پر ان واقعات کے خلاف احتجاج نہ کیا جارہا ہو اور صدائے احتجاج بلند نہ کی جارہی ہو ۔حکومت کی جانب سے بھی اس طرح کے واقعات پر ہر طرح کی کارروائی کرنے کا ادعا کیا جا رہا ہے ۔ خاطیوں کو مقدمات درج کرکے جیل بھیجا جا رہا ہے ۔ انہیں سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ سماجی سطح پر انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔ ان سب کے باوجود آج ملک بھر میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور عصمت ریزی کے واقعات ہیں کہ رکنے یا تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور ان واقعات میں مسلسل اضافہ ہی درج کیا جا رہا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ملک بھر میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔ عصمت ریزی ہو کہ دست درازی ہو یہ ایسے واقعات ہیں جن سے ہندوستان بھر کے عوام میں ایک طرح کی تشویش پیدا ہوگئی ہے ۔ اخلاق و اقدار کی پاسداری کرنے والی قوم میں اس طرح کے واقعات سماج کے ماتھے پر کلنک بنتے جا رہے ہیں ۔ ہندوستان کو سیر و تفریح کی غرض سے آنے والی بیرونی سیاح خواتین بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں ہیں ۔ ان کے ساتھ بھی اکثر و بیشتر دست درازی اور عصمت ریزی کے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں جن کے نتیجہ میں عالمی سطح پر ہندوستان کی جو شبیہہ ہے وہ بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ دہلی میں پیش آئے عصمت ریزی کے بہیمانہ واقعہ کے بعد سے اس تعلق سے سماج میں کچھ شعور بیدار ہوا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سب کے باوجود یہ لعنت رکنے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے سماجی کو ذمہ دارانہ رول ادا کرنا ہوگا ۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں اس میں موثر ثابت نہیں ہو رہی ہیں اور اس لعنت کا خاتمہ کرنا صرف حکومت کا ذمہ بھی نہیں ہے ۔
اس سلسلہ میں سماج کے مختلف گوشوں کو اور غیر سرکاری تنظیموں کو اپنا رول ادا کرتے ہوئے شعور بیدار کرنا چاہئے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس لعنت کو ختم کرنا یا اس پر قابو پانا بظاہر تو ممکن نظر نہیں آتا ۔ ہندوستان روایات و اقدار کا اور تہذیب وتمدن کا ملک ہے اور دنیا بھر میں اس کی یہی شناخت ہے ۔ اس شناخت کو عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ کی وجہ سے داغدار کیا جارہا ہے ۔ حکومت یقینی طور پر اپنا رول ادا کر رہی ہے لیکن سماج کے ذمہ داران بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ انہیں سماجی سطح پر اس تعلق سے مہم چلانے کی اور خواتین کی عظمت اور ان کی تقدس کی تشہیر کرتے ہوئے ان کے تعلق سے احترام کی صورتحال پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک سماج میں ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک محض سرکاری اقدامات اور قانون کی کارروائیوں پر اکتفا کرکے بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ میں بھی عصمت ریزی کے واقعات پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ یہاں صرف مخصوص واقعات کو اچھا جاتا ہے ورنہ عصمت و عفت ہر خاتون کی اہم ہے اور ملک بھر میں ہر روز عصمتوں کے تار داغدار کئے جا رہے ہیں۔ میڈیا صرف مخصوص واقعات کو مخصوص انداز میں اچھالتے ہوئے کسی نہ کسی کو نشانہ بنانے کے عمل میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔ میڈیا کا یہ طرز عمل ہوسکتا ہے کہ اس کے اپنے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ تو بنتا ہو لیکن اس کے نتیجہ میں ہندوستان کے سماج کو اس لعنت اور برائی سے چھٹکارہ دلانے میں مدد ہرگز نہیں ملتی ۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
علاوہ ازیں عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ کیلئے نت نئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ کوئی کلچر کو ذمہ دار قرا ر دیتا ہے تو کوئی کپڑوں کو تو کوئی نان ویجیٹیرین غذاؤں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے ۔ سب سے بنیادی اور اصل پہلو یہ ہے کہ ہندوستان میں خواتین کے تقدس اور ان کے احترام کو گھٹایا جارہا ہے ۔ دنیا کے ہر مذہب میں خواتین کی عصمتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور انہیں ماں ‘ بہن ‘ بیٹی اور بیوی کی شکل میں ایک احترام دیا گیا ہے اور ہم اسی احترام اور اسی تقدس کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اگر سماجی سطح پر خواتین کے تقدس کو اور ان کے احترام کو اجاگر کرنے بیداری شعور کی مہم شروع کی جاتی ہے تو اس کے اچھے اثرات اور نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ قانون اور حکومت کی کارروائیوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن سماج جب تک اس لعنت کے خاتمہ میں اپنا رول ادا نہیں کرتا اس وقت تک اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔