عصمت ریزی پر سزائے موت

مرکزی حکومت نے عصمت ریزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ کا عوامی سطح پر شدید برہمی اور حکومت کی خاموشی یا عدم کارکردگی پر مسلسل تنقیدوں کے بعد بالآخر نوٹ لیا ہے اور 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی عصمت ریزی پر سزائے موت کا آرڈیننس جاری کردیا ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ میں ملک میں عصمت ریزی کے واقعات میں خطرناک حدوں تک اضافہ ہوگیا ہے ۔ اناؤ میں ایک بی جے پی رکن اسمبلی پر عصمت ریزی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کردی گئی ہیں تو جموںو کشمیر میں کٹھوا کے مقام پر ایک کمسن آٹھ سالہ لڑکی کا اغوا ‘ اسے نشیلی ادویات دینے اور پھر عصمت ریزی کے بعد قتل کردینے کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے سارے ملک میں برہمی کی لہر پیدا کردی تھی ۔ ملک کا کوئی شہر اور کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جس نے اس بہیمانہ اور سفاکانہ واقعہ کے خلاف احتجاج نہ درج کروایا ہو۔ عوامی سطح پر شدید برہمی کے باوجود ایسے واقعات کی روک تھام نہیں ہو رہی تھی ۔ سورت میں عصمت ریزی کا واقعہ پیش آیا جہاں متاثرہ لڑکی کے جسم پر زخموں کے 86 نشانات پائے گئے ۔ اسی طرح خود اترپردیش میں شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے آئی ایک معصوم لڑکی کی عصمت ریزی ہوئی اور تازہ ترین اور انتہائی شرمناک اور غیر انسانی واقعہ گجرات میں پیش آیا جہاں عریاں فلموں کے اثر میں ایک نوجوان نے اپنی ہی ماں کے ساتھ یہ درندگی والی حرکت کرتے ہوئے ہر طرح کے اخلاقیات اور اقدار کو پامال کردیا ۔ اس نے نہ مذہبی تعلیمات کی پرواہ کی اور نہ ہندوستانی روایات کا احترام کیا اور ہوس کا شکار ہوکر ایک مقدس رشتہ کے تقدس کو تار تار کردیا ۔ میڈیا میں جو واقعات کی تشہیر ہو رہی ہے اورا طلاعات سامنے آ رہی ہیں وہ صرف چند ایک معاملات ہیں ورنہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تو ہندوستان میں ہر گھنٹے میں عصمت ریزی کے تین واقعات پیش آتے ہیں۔ کئی واقعات ایسے بھی ہیں جن کو پولیس تک پہونچنے ہی نہیں دیا جاتا ۔ بعض موقعوں پر ملزمین کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور بعض موقعوں پر سماجی حالات کو دیکھتے ہوئے خود متاثرہ لڑکیاں اور خواتین اس گھناؤنے جرم کا شکار ہونے کے باوجود خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔
ملک بھر میں یہ مطالبات شدت اختیار کرتے جا رہے تھے کہ عصمت ریزی جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے ۔ خاطیوں کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے ۔ دہلی میں خواتین کمیشن کی صدر نشین سواتی مالیوال نے اس مطالبہ پر تو بھوک ہڑتال بھی کی ۔ عوامی برہمی کو دیکھتے ہوئے مرکز کو حرکت میں آنا پڑا اور کابینہ میں ایک آرڈیننس کو منظوری دی گئی جسے صدر جمہوریہ سے بھی ہری جھنڈی مل گئی ۔ اس آرڈیننس کے تحت 12 سال سے کم عمر لڑکیوں کی عصمت ریزی پر سزائے موت کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ ایسے قانون میں بالغ اور نابالغ کی شرط عائد کردی گئی ہے جو ضروری نہیں تھی ۔ عصمت ریزی ایک انتہائی سنگین اور گھناؤنا جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو انتہائی سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں۔ کچھ گوشے اس پہلو پر بھی غور کی صلاح دے رہے تھے کہ بعض موقعوں پر سخت قوانین کا بیجا استعمال بھی ہوتا ہے اور ایک فریق دوسرے کو نشانہ بناتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ حکومت کو تمام پہلووں پر غور کرتے ہوئے ایسے کچھ مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے سماج میں اس جرم کے تعلق سے شعور بیدار ہو اور متاثرین کی مدد کیلئے بھی گنجائش فراہم ہونی چاہئے ۔ سماج میں عصمت ریزی اور جنسی جرائم کا شکار بننے والی خواتین کے ساتھ جو امتیاز برتا جاتا ہے اس کو بھی ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس معاملہ میں حکومت کے ساتھ ہر گوشے کو سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔
عصمت ریزی جیسا گھناؤنا جرم در اصل ایک بیمار سوچ و ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اگر ہم گجرات میں پیش آئے تازہ ترین واقعہ کو دیکھیں تو ماں جیسے مقدس رشتہ کی حرمت کو تار تار کردیا گیا ۔ یہ سماج میں پھیلی ہوئی گندی سوچ اور ہر طرف بکھری ہوئی عریانیت کا نتیجہ ہی ہے ۔ سماج میں ایسی سوچ اور ایسے حالات کی روک تھام کیلئے صرف حکومتوں کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اس کیلئے سماج کے ہر گوشہ کو سامنے آنے اور اپنا فریضہ ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسکولس اور کالجس میں خاص طور پر ایسے حالات کا تدارک کرنے کیلئے مہم چلائی جاسکتی ہے تاکہ ملک کا نوجوان اس لعنت کے خلاف باشعور ہوسکے اور اس کے اثرات سے بھی اسے واقف کروایا جاسکے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ حکومت نے جو آرڈیننس جاری کیا ہے وہ تاخیر سے کی گئی ناکافی کوشش ہے لیکن اس کو بھی کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستانی سماج کو خواتین کی عزت و احترام کے معاملہ میں باشعور بنانا سماج کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری بہر صورت پوری کی جانی چاہئے ۔