عرب شہریوں سے شادیاں ، طلاق اور خلع پر زائد فیس وصولی کی تجویز

تلنگانہ وقف بورڈ کا محکمہ اقلیتی بہبود کے ساتھ اجلاس کا فیصلہ ، محمد سلیم چیرمین وقف بورڈ کی مشاورت
حیدرآباد ۔ یکم ستمبر (سیاست نیوز) عرب شہریوں سے غریب لڑکیوں کی شادی، قاضیوں کی جانب سے طلاق اور خلع کی تکمیل اور نکاح کے موقع پر زائد فیس کی وصولی جیسے امور کا حل تلاش کرنے کیلئے تلنگانہ وقف بورڈ نے محکمہ اقلیتی بہبود کے اشتراک سے وسیع تر اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے اس اجلاس کے سلسلہ میں سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل سے مشاورت کی اور اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ علماء و مشائخ اور قاضیوں کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے تاکہ ملت کو درپیش ان اہم مسائل کی یکسوئی کے سلسلہ میں حکمت عملی طئے کی جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ عرب شہریوں کی شادیوں کو باقاعدہ بنانے کیلئے حکومت قانون سازی پر غور کر رہی ہے۔ قانون کے ذریعہ عرب شہریوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ہندوستان آمد کے موقع پر اپنی حکومت سے نو آبجکشن سرٹیفکٹ حاصل کرلیں اور ویزا کی اجرائی کے سلسلہ میں یہ وضاحت شامل کی جائے کہ یہ دورہ شادی کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون میں لڑکی کے نام پر 10 لاکھ روپئے فکسڈ ڈپازٹ کرنے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے ۔ شادی سے قبل عرب یا پھر کسی اور غیر ملکی شہری کو کمشنر پولیس سے اجازت حاصل کرنی ہوگی۔ پولیس مکمل دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد ہی شادی کی اجازت دے گی ۔انہوں نے کہا کہ قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے جن میں والدین اور قاضی بھی شامل ہوں گے۔ محمد سلیم نے بتایا کہ مختلف گوشوں سے انہیں عرب شہریوں کی شادیوں کے سلسلہ میں قاضیوں کے رول پر مختلف شکایات موصول ہورہی ہیں ۔ حالیہ دنوں میں پرانے شہر میں پولیس نے بعض قاضیوں کے خلاف مقدمات درج کئے۔ انہوں نے کہا کہ جن قاضیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ، انہیں نکاح انجام دینے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ محمد سلیم نے کہا کہ اگرچہ قاضیوں کے تقررات یا برخواستگی کا مسئلہ محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت ہے ۔ تاہم وہ صدرنشین وقف بورڈ کی حیثیت سے اس مسئلہ کی یکسوئی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں کو حقیر معاشی مفادات کیلئے طلاق اورخلع کی فی الفور تکمیل سے گریز کرنا چاہئے۔ اگر اس طرح کے واقعات رجوع ہوتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ طلاق کی تکمیل کے بجائے شرعی اعتبار سے کونسلنگ کریں اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ شوہر اور بیوی میں اختلافات ختم ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق فیصلے کریں۔ محمد سلیم نے نکاح کے موقع پر قاضیوں کی جانب سے من مانی فیس کی وصولی کی مخالفت کی ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ قاضیوں کو صرف لڑکے والوں سے فیس لینا چاہئے ۔ اکثر معاملات میں لڑکی والے غریب ہوتے ہیں۔ لہذا ان سے فیس کیلئے اصرار نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ سیاہہ نامہ کے بک لیٹ قاضیوں کو صرف 52 روپئے میں جاری کرتا ہے۔ لہذا زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپئے تک نکاح کی فیس وصول کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اجلاس میں ان تینوں موضوعات پر مسلم عوامی نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں کی رائے حاصل کرتے ہوئے حکومت کے ذریعہ احکامات کی اجرائی کی کوشش کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض گوشوں کی جانب سے یہ غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں کہ وقف بورڈ قاضیوں کے امور میں مداخلت کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اس مسئلہ پر اظہار خیال کا حق رکھتے ہیں اور جو بھی فیصلہ ہوگا اس میں قاضیوں کے نمائندوں کی رائے بھی حاصل کی جائے گی۔ محمد سلیم نے تجویز پیش کی کہ غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کیلئے ملت کیلئے اہل خیر حضرات کو آگے آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ محلہ واری سطح پر اگر اس مسئلہ کی یکسوئی کی جائے تو سماج میں غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ بآسانی حل ہوجائے گا۔ ہر محلہ کے اہل ثروت افراد کو چاہئے کہ وہ اپنے محلہ کی غریب مسلم لڑ کیوں کی شادی کا ذمہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ یا وہ شخصی طور پر غریب لڑکیوں کی شادی کیلئے ممکنہ تعاون کیلئے تیار ہیں۔