عراق میں ہندوستانیوں کی سلامتی کا مسئلہ

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
عراق میں ہندوستانیوں کی سلامتی کا مسئلہ
عراق میں بڑھتے تشدد کے درمیان حکومت ہند کو اپنے ہندوستانی شہریوں کی سلامتی کی فکر کرنا ضروری امر ہے ۔ عراق میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لئے غور و خوض کیا گیا۔ وزارت ِداخلہ نے خلیجی ملکوں میں تعینات ہندوستانی سفیروں کا اجلاس طلب کرکے بیرونی ملکوںمیں مقیم ہندوستانیوں کی سلامتی پر حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے خاص کر عراق میں ان دنوں پرتشدد واقعات کے درمیان ہندوستانیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات پر تشویش پیدا ہوئی ہے۔ عراق کے نصف علاقوں میں اس وقت 10 ہزار ہندوستانی شہریوں کی محفوظ واپسی کی کوشش میں ہندوستانی سفیر اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دے کر ہندوستانی غیر مقیم افراد کی زندگیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ایک مستقل فنڈ کے قیام پر توجہ دینا بھی وقت کا تقاضہ ہے۔ بیرون ملک مقیم ہندوستانی شہریوں کے ارکان خاندان کو بھی اپنے بچوں کی زندگیوں کی ہمیشہ فکر ہوتی ہے لیکن اب تک حکومت ہند نے ان شہریوں سے راست رابطہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ کسی بھی ملک کے داخلی حالات وہاں کی صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں عراق میں اس وقت تشدد کے واقعات ایک نئی تبدیلی کی طرف اشارہ دے رہے ہیں۔ ہندوستانی سفارت خانوں کو خلیجی ملکوں کے شہروں میں مقیم ہندوستانیوں کے بارے میں ایک جامع پروگرام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی نازک گھڑی میں ہندوستانی سفیر اپنے شہریوں سے فوری رابطہ قائم کرسکیں ۔ عراق میں اب تک ہندوستانی سفارت کاروں نے پھنسے ہوئے ہندوستانیوں سے راست ملاقات نہیںکی یا ایسا نہیںکرسکے ۔ بیرون ملکوں میں کام کررہے سفارتخانوں میںایک ایسے خصوصی فنڈ کو بھی قائم کیا جانا چاہئے جس کی مدد سے کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹا جاسکے ۔ قطر ، عمان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی سفیروں کو ہی یہ بہترواقفیت ہوگی کہ بیرون شہریوں کی مدد کرنے کیلئے کیا طریقہ اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بیرونی ہندوستانی سفارتخانوں میں ہندوستانی برادری کے بہبود کافنڈس ہوتا ہے جس کو عراق جیسے حالات میں پیدا ہونے والی صورتحال پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خلیجی ملکوں کے مختلف ہندوستانی سفارتخانوں میں موجود اس طرح کے ہندوستانیوں کی بہبود کے فنڈس کو اب عراق میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بغدادی میں ہندوستانی سفیروں کو اپنا کام انجام دینے کیلئے بھر پور تعاون کی ضرورت ہے اس کیلئے وزیر خارجہ سشما سواراج کو فوری قدم اٹھاتے ہوئے خصوصی فنڈس کی فراہمی کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہنگامی حالات یا بحران کی صورت میں دستیاب قومی اثاثہ سے استفادہ کرنا وقت کا تقاضہ ہوتا ہے مگر حکومت ہند نے ایک ماہ سے اس مسئلہ کو طول دے کر ہندوستانیوں کی سلامتی کو مزید جوکھم میں ڈالدیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عراق میں تشدد کی لہر اٹھتے ہی ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کا انتظامکیا جائے ۔ عراق کے تشدد والے زون میں ایک اندازہ کے مطابق 150 ہندوستانی پھنسے ہوئے ہیں ان میں سے زائد از 50 ہندوستانی خود کو محفوظ طور پر نکال لینے میں کامیاب ہوئے ۔ اصل تشویش کی بات ان ہندوستانیوں سے متعلق ہے جن کا باغیوں نے اغواء کرلیا ہے۔تکریت میں بھی گھمسان کی لڑئی جاری ہے جہاں ہندوستانی نرسیس پھنسی ہوئی ہیں افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت ہند کے پاس فنڈس کی کمی کی وجہ سے ہندوستانیوں کو بحران سے نکالنے میں تاخیر ہورہی ہے ۔ ضروری امداد فراہم کرنا حکومت کا کام ہے ۔ وزارت داخلہ نے اگرچیکہ اس خطہ میں موجود 18 ہندوستانی سفیروں کو پھنسے ہوئے ہندوستانیوں سے رابطہ قائم کرنے کیلئے مامور کیا ہے ۔ مزید 26 عہدیداروں کو عراق روانہ کیا جارہا ہے ۔ وزارت داخلہ نے ایک تک دوڑ دھوپ کرنے کی سرگرمیاں ہی دکھائی ہیں ۔ عملی طور پر کوئی مظاہرہ نہیں کیا جس کے نتیجہ میں ہندوستانی خاندانوں کو اپنے رشتہ داروں کی زندگیوں اور ان کی سلامتی کی فکر لاحق ہے۔ اندازہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں 4 ملین ہندوستانی ورکرس کام کرتے ہیں مستقبل میں ان ورکرس کی بہبود کا خیال کرنا حکومت ہند کا کام ہے ۔ عراق بحران کے بعد ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کا انتظام کرنے میں نریندر مودی حکومت کی ناکامی سے ان کی زندگیاں مزید خطرات کا سامنا کررہی ہیں۔ وزارت داخلہ نے بروقت قدم اٹھاکر ہندوستانی ورکرس کیلئے سفری دستاویزات کا انتظام کرتے ہوئے ان کے معاہدوں اور کام کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کی ہوتی تو صورتِ حال تشویشناک نہ ہوتی۔ ہندوستانی مزدور ملازمین پیشہ و ماہرین اور تکنیکی ماہرین عراق اور افغانستان جیسے جنگ سے تباہ حال ملکوں کی تعمیر نو کے کام میں جی جاں سے لگے ہوئے ہیں ۔ ان کا تحفظ ہر حال میں لازمی ہے۔ عراق میں القاعدہ حاوی ہوتا ہے اور دولت اِسلامی عراق و شام (داعش) نامی نئی تنظیم ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ اس کی سرگرمیوں اور کارروائیوں کی وجہ سے سارے عراق میں بدامنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ حکومت ہند کی خارجہ پالیسی کیلئے یہ حالات آزمائشی بھی ہیں۔ کیونکہ نریندر مودی حکومت نے اب تک خلیجی ملکوں یا عالم اسلام کے ساتھ تعلقات میں اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کیا ہے۔نریندر مودی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی بروقت وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر خارجہ سشما سوراج اب تک مذاکرات کی کوششوں کی دہلیز پر ہی ٹہری ہوئی ہیں ۔ انہیں سفارتی چیانلوں سے رابطہ قائم کرنے تمام ہندوستان کے لئے خصوصی پروازوں کا انتظام کرنا چاہئے۔