عدلیہ کی ماورائے دستور فعالیت پر اعتراض

غریبوں کے ساتھ ناانصافی اور ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ کا الزام
نئی دہلی ۔ 2 ۔ مئی (سیاست ڈاٹ کام) لوک سبھا میں آج ایک بی جے پی رکن نے عدلیہ کی ماورائے دستور فعالیت پر اعتراض کیا اور کہا کہ وہ مختلف اداروں کو جوابدہ بنانا چاہتی ہے لیکن معرض التواء مقدمات کی یکسوئی کیلئے ذمہ داری قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے ۔ راوت راج نے حالیہ مدھیہ پردیش ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کے خلاف تبصرہ کیا جس میں سال 2002 ء سے ریاستی حکومت کی خدمات میں درج فہرست ذاتوں اور قبائلوں نے پرموشن کوٹہ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلہ کو فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ وقفہ صفر کے دوران یہ مسئلہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے پرموشن (ترقیوں) میں ریزرویشن کیلئے قانون میں ترمیم کی تھی اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی تصدیق کردی تھی ۔ بی جے پی رکن نے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کیلئے مذکورہ فیصلہ کا استعمال کیا اور ایوان میں دیگر ارکان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی ماورائے دستور فعالیت سے غریبوں کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ترقیاتی کاموں میں بھی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ عرصہ دراز سے لیت و لعل کا شکار مقدمات کی یکسوئی میں عدلیہ ناکام ہوگئی ہے ۔ گو کہ ججوں کا تقرر ایک آزادانہ طریقہ پر کیا جاتا ہے ۔ مسٹر اروت راج نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے عدلیہ اپنی  ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرتی ہیں۔ انہوں نے ریاست میں صدر راج کے خلاف اتراکھنڈ ہائیکورٹ کے حوالوں پر بھی اعتراض کیا۔کانتی لال بھوریہ (کانگریس) نے مودی حکومت پر حملہ کیلئے ہائیکورٹ کے حکم کا استعمال کیا اور جب یہ سوال کیا کہ کوئی خفیہ ایجنڈہ ہے جسے عدالتوں کے ذ ریعہ روبعمل لایا جارہا ہے ۔ حکومت کی بے عملی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ پرموشن کوٹہ میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو اور جن رام میگھوال (بی جے پی ) نے حال ہی میں لوک سبھا میں یہ اصرار کیا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف عدلیہ کے رواں تبصرہ پر روک لگائی جائے۔