نئی دہلی۔ 5 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی نے آج عدلیہ کو مشورہ دیا کہ وہ ’’قیاس و احساسات‘‘ پر مبنی فیصلوں سے گریز کرے اور مشورہ دیا کہ وہ (عدلیہ) خود احتسابی کیلئے ایک داخلی طریقہ کار وضع کرے کیونکہ ججوں کو ’’محترم و مقدس‘‘ تصور کیا جاتا ہے اور سیاسی برادری کے برخلاف شاذ و نادر ہی انہیں (ججوں کو) تنقید و مذمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ملک بھر کے ہائیکورٹ چیف جسٹسیس کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا کہ عدلیہ روز بروز زیادہ طاقتور ہورہی ہے اور یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ عوامی توقعات کو پورا کرنے کیلئے خود کو ’’کامل‘‘ بنائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’قانون اور دستور کی بنیاد پر فیصلے کرنا آسان ہے لیکن قیاس و احساسات پر مبنی فیصلوں سے گریز کیا جانا چاہئے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’فائیو اسٹار‘‘ جہد کاروں کی طرف سے اکثر و بیشتر ’’قیاس و احساس‘‘ پر مبنی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ مسٹر مودی نے کہا کہ ’’خدا کے بعد عدلیہ کو ہی مقدس سمجھا جاتا ہے اور عدلیہ کو مشورہ دیا کہ اپنی خود احتسابی کیلئے داخلی میکانزم تیار کرے جو یقینا ایک دشوار گذار کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم (سیاسی برادری) خوش قسمت ہیں کہ ہم پر نظر رکھی جاتی ہے اور تنقید بھی کی جاتی ہے
لیکن آپ (عدلیہ) ایسے خوش نصیب نہیں ہیں‘‘۔ وزیراعظم مودی نے جو یہاں ریاستوں کے ہائیکورٹ چیف جسٹسیس اور چیف منسٹر کی 24 ویں مشترکہ کانفرنس سے خطاب کررہے تھے، کہا کہ ’’اگر آپ (عدلیہ) کسی شخص کو (سزائے) موت دیتے ہیں تو وہ بھی عدالت کے باہر نکل کر کہتا ہے کہ میں عدلیہ پر پورا یقین رکھتا ہوں اور تنقید کا شاید ہی کوئی موقع رہتا ہے چنانچہ وقت کا تقاضہ ہے کہ عدلیہ کے خود احتساب کیلئے داخلی میکانزم تیار کیا جائے جس میں سیاست دانوں کا کوئی رول نہ رہے۔ اگر ایسا کوئی میکانزم تیار نہیں کیا گیا اور عدلیہ پر عوام کا بھروسہ ذرا برابر بھی متاثر ہوتا ہے تو اس سے سارے ملک اور قوم کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاست داں یا حکومت کوئی غلطی کرتے ہیں تو عدلیہ اس نقصان کی تلافی کرسکتی ہے لیکن جب آپ (عدلیہ) سے ہی کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو سب کچھ ختم ہوجائے گا‘‘۔ مسٹر مودی نے یہ ریمارکس ایک ایسے وقت کئے ہیں جب مدھیہ پردیش ہائیکورٹ کے ایک جج کی جانب سے عدلیہ کی ایک افسر کی مبینہ جنسی ہراسانی پر ان (جج) کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک مواخذہ پیش کی جارہی ہے۔
زیرتصفیہ مقدمات کی اندرون پانچ سال یکسوئی
چیف جسٹس آف انڈیا ایچ ایل دتو نے مودی کی جانب سے خوداحتسابی کا مسئلہ اٹھائے جانے کے بعد کہا کہ عدلیہ میں پہلے ہی سے یہ میکانزم موجود ہے اور اس پر موثر عمل کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس میکانزم پر ملک بھر میں نظر بھی رکھی جارہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستانی عدلیہ میں زیرتصفیہ مقدمات کی تعداد تقریباً 3 کروڑ ہوچکی ہے ۔ ہم نے ایک ایسا طریقہ کار اختیار کیا ہے جہاں کسی بھی مقدمہ کی میعاد 5 سال سے زائد نہ ہو ۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ حتی الامکان کوشش کی جائے کہ کوئی بھی مقدمہ 5 سال سے زیادہ زیرتصفیہ نہ رہے ۔ انہوں نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ اور مقننہ کے مابین باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ’’بھائی بہن‘‘ کی طرح ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں جمہوریت کے بچے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی پاسداری کرنی چاہئیے ۔انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں دشواری کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بات چیت ہی بند کردی جائے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ ایچ ایل دتو نے عدلیہ کے مالیہ کو خود خود اختیار بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ذہین اور باصلاحیت افراد کو عدلیہ سے وابستگی کیلئے راغب کیا جاسکے۔
عدلیہ اور پارلیمان جمہوریت کے