تلنگانہ پولیس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ، ٹی جیون ریڈی کا ردعمل
حیدرآباد ۔ 4 ۔ دسمبر : ( سیاست نیوز ) : کانگریس کے رکن اسمبلی ٹی جیون ریڈی نے عثمانیہ یونیورسٹی میں طالب علم مرلی کی خود کشی کو سرکاری قتل قرار دیتے ہوئے اس کی برسر خدمات جج کے ذریعہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ۔ آج گاندھی بھون میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات بتائی ۔ اس موقع پر ترجمان اعلیٰ ٹی پی سی سی ڈاکٹر شرون بھی موجود تھے ۔ ٹی جیون ریڈی نے پولیس پر ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سنہرے تلنگانہ کا نعرہ دیتے ہوئے حکمران ٹی آر ایس طلبہ کی زندگیوں سے کھلواڑ کررہی ہے ۔ تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے عثمانیہ یونیورسٹی کو پولیس چھاونی میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ انتخابات سے قبل کے سی آر نے گھر کو ایک ملازمت دینے کا وعدہ کیا ۔ اقتدار حاصل ہونے کے بعد طلبہ و نوجوانوں سے جو بھی وعدے کیے گئے ان سب کو فراموش کردیا گیا ۔ ملازمت کے مواقع فراہم نہ ہونے پر طلبہ مایوسی کا شکار ہو کر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں طالب علم مرلی نے جو خود کشی کی ہے ۔ اس کی ساری ذمہ داری چیف منسٹر کے سی آر پر عائد ہوتی ہے ۔ آج عثمانیہ یونیورسٹی اور طلبہ کے خلاف جو کارروائی کی جارہی ہے اس کی متحدہ آندھرا میں بھی اس طرح کی مثال نہیں ملتی ۔ ٹی آر ایس حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔ تلنگانہ تحریک میں کلیدی رول ادا کرنے والی تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو حکومت نے جلسہ عام کی اجازت نہیں دی ہے ۔ پروفیسر کودنڈا رام نے ہائی کورٹ سے رجوع ہو کر جلسہ عام منعقد کرنے کی اجازت حاصل کی ہے ۔ عدلیہ کی منظوری سے انعقاد کیے جانے والے جلسہ عام میں بھی پولیس حد سے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام بالخصوص نوجوانوں کو جلسہ گاہ تک پہونچنے سے روکنے کی کوشش کررہی ہے جو قابل مذمت ہے ۔ اس کا حکومت کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ لا اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال پر پولیس حالت کو قابو میں کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرتی ہے مگر عثمانیہ یونیورسٹی میں پولیس غیر ضروری طلبہ پر لاٹھی چارج کررہی ہے ۔ ترجمان اعلیٰ تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی ڈاکٹر شرون نے کہا کہ متحدہ آندھرا پردیش میں آندھرائی حکمرانوں نے طلبہ کی دل آزاری کرتے ہوئے ان کی بدعا لی تھی اور اقتدار سے محروم ہوگئے ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست میں کے سی آر بھی طلبہ کی بدعا لے رہے ہیں ۔ ان کا بھی وہی حال ہوگا جو آندھرائی حکمرانوں کا ہوا ہے ۔ 2 لاکھ جائیدادوں پر تقررات کرنے کے بجائے حکومت نے صرف 20 ہزار جائیدادوں پر تقررات کیے ہیں ۔۔