عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کے احاطہ میں ہمہ منزلہ عمارتیں و ٹاورس

حیدرآباد ۔ 5 اگست (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت عثمانیہ ہاسپٹل کی تاریخی و یادگار عمارت کو برقرار رکھتے ہوئے ہاسپٹل کے احاطے میں موجود خالی اراضی پر 10 منزلہ عمارتوں کے 2 ٹاورس تعمیر کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے، جس پر 800 کروڑ روپئے کے مصارف ہوں گے۔ وزیرصحت لکشماریڈی نے کہا کہ چیف منسٹر کی منظوری حاصل ہوتے ہی دیڑھ سال میں عثمانیہ ہاسپٹل کا نقشہ بدل جائے گا۔ سلطنت آصفیہ کے آخری بادشاہ میر عثمان علی خان کی جانب سے قائم کردہ عثمانیہ ہاسپٹل جنوبی ہندمیں کافی مقبولیت رکھتا ہے۔ آج بھی سابق ریاست حیدرآباد کے مختلف علاقوں سے عوام علاج کرانے کیلئے عثمانیہ ہاسپٹل پہنچے ہیں۔ تاہم اس عظیم الشان عمارت کا تحفظ کرنے اور مریضوں کو عمدہ سہولتیں فراہم کرنے میں ماضی کی حکومتوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، جس کی وجہ سے تاریخی عمارت بوسیدہ ہوگئی ہے۔ باوجود اس کے عوام کا ا عتماد عثمانیہ ہاسپٹل پر برقرار ہے۔ عمارت کے بوسیدہ ہوجانے پر عوام کو خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے تلنگانہ حکومت نے قدیم اور تاریخی عثمانیہ ہاسپٹل کی عمارت کو منہدم کرتے ہوئے نئی کارپوریٹ طرز کی عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس وقت سیاسی جماعتوں اور مختلف سماجی و رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی جس کے بعد حکومت نے قدیم اور تاریخی عمارت کو منہدم کرنے کے فیصلے سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے عثمانیہ ہاسپٹل کے احاطے میں موجود 13 لاکھ فیٹ وسیع اراضی پر دو بڑے بڑے ٹاورس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک ٹاور 10 منزلہ عمارت پر مشتمل ہوگا اور ایک ٹاور میں 1000 بستروں کی گنجائش فراہم کی جائے گی۔ اس طرح 2 ٹاورس میں 2000 بستروں کی گنجائش فراہم ہوگی۔ حکومت نے نئی عمارتوں کو کارپوریٹ طرز کی تمام سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو اور مریضوں کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ فی الحال عثمانیہ ہاسپٹل میں 1168 بیڈس (بسترس) ہیں جبکہ ہاسپٹل پہنچنے والے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے کافی کم ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے بستروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹرس کی جانب سے غیرسرکاری طور پر مزید 200 بستروں کا اضافہ کیا گیا ہے پھر بھی بستروں کی تعداد ناکافی ہے۔ کم از کم 2000 بستروں کی ضرورت ہے۔ عثمانیہ ہاسپٹل میں یومیہ 2000 آوٹ پیشنٹ اور 150 تا 200 ان پیشنٹ کو طبی خدمات فراہم کی جارہی ہے۔ 15 سال قبل 600 ڈاکٹرس کی خدمات تھی جو اب گھٹ کر 300 تک پہنچ گئی۔ سوائے ایم بی بی ایس کے دوسرے پروفیشنل ڈاکٹرس عثمانیہ ہاسپٹل میں خدمات انجام دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سینئر اور تجربہ کار ڈاکٹرس کی عدم موجودگی کے باعث تقریباً 10 یونٹس کو 6 سال قبل بند کردیا گیا۔ ماضی میں 600 اسٹاف نرسیس خدمات انجام دیتی تھی جو اب گھٹ کر 150 تک پہنچ گئی ہیں۔ ماضی میں چوتھے درجے کے 1500 ملازمین خدمات انجام دیتے تھے جن کی تعداد گھٹ کر 200 تک پہنچ گئی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں عثمانیہ ہاسپٹل کیلئے 100 کروڑ روپئے منظور کیا تھا لیکن اس کی اجرائی عمل میں نہیں آئی۔ 20 سال قبل خریدے گئے طبی آلات تقریباً ناکارہ ہوگئے ہیں جس سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں لہٰذا حکومت نے نیا کارپوریٹ طرز کا عثمانیہ ہاسپٹل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیرصحت لکشماریڈی نے کہا کہ ملک کے بڑے سرکاری ہاسپٹلس کے طرز پر عثمانیہ ہاسپٹل تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ عمارتوں کی تعمیرات کیلئے نمونہ تیار کرلیا گیا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کی جانب سے اس کو منظوری دیتے ہی اندرون دیڑھ سال ٹاورس پر مشتمل نئی عمارتیں تعمیر ہوجائیں گی۔