عبدالقدیر کانسٹبل کی رہائی کی راہ ہموار کرنے چیف منسٹر سے درخواست

حیدرآباد ۔ 12 جون (نمائندہ خصوصی) آندھراپردیش اور تلنگانہ کے علاوہ ملک کی مختلف ریاستوں میں یوم آزادی کے موقع پر عمرقید کی سزاء پا رہے بے شمار قیدیوں کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جاتا ہے۔ ان میں ایسے مجرمین بھی ہوتے ہیں جنہوں نے خطرناک اور دل کو دہلا دینے والے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس سلسلہ میں حقوق انسانی کے جہدکاروں اور تنظیموں کا کہنا یہی ہوتا ہیکہ اسی طرح ہر سال یوم آزادی کو رہائی پانے والے قیدیوں میں ان افراد کی اکثریت ہوتی ہے جو سیاسی اثرورسوخ کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا ایک خاندان ایسا بھی ہے جو ہر سال اپنے صدر خاندان کی رہائی کی آس میں رہتا ہے لیکن اس خاندان کو ہمیشہ مایوسی ہی ہوتی ہے۔ قارئین ہم یہاں بات کررہے ہیں سابقہ کانسٹیبل عبدالقدیر کی جو آج ہندوستان کی جیلوں میں سب سے زیادہ عرصہ گذارنے والے مظلوم قیدی بن گئے ہیں۔ کم از کم آندھراپردیش اور تلنگانہ میں عبدالقدیر کی طرح کوئی بھی قیدی 25 برسوں سے قید نہیں ہے۔ یہاں اس معاملہ میں دوسرے نمبر پر پیپلز وار گروپ کے لیڈر وی گنیش ہیں جو 17 سال عمر قید میں رہے۔ عبدالقدیر کو 1990ء کے حیدرآباد فسادات کے دوران اے سی پی ستیہ کو ہلاک کرنے کی پاداش میں عمرقید کی سزاء سنائی گئی تھی۔ عبدالقدیر کی اہلیہ صابرہ بیگم اور ان کے بچے ہر سال اس آس میں رہتے ہیں کہ اس مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر رہا کئے جانے والے عمر قید کے قیدیوں میں عبدالقدیر کا نام ضرور شامل ہوگا لیکن انہیں مایوسی ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں اکثر لوگوں کا یہی کہنا ہیکہ اگر عبدالقدیر کے بجائے کوئی ریڈی یا کمار ہوتا تو 14 سال کی تکمیل سے قبل ہی اس کی سزائے قید معاف کردی جاتی۔ اس کی وجہ خود مسلم و غیرمسلم دانشور یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہیں۔ ان میں اپنے قیدیوں کو رہائی دلانے کی ہمت و حوصلہ نہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ عبدالقدیر کی اہلیہ صابرہ بیگم اور ان کے بچوں کی یہی خواہش ہوگی کہ اب کی بار عبدالقدیر ان کے ساتھ سحر کریں، افطار کھائیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ اس خاندان کے ساتھ جو کچھ کیا جاتا ہے دکھاوے اور ریاکاری کیلئے کیا جاتا ہے اگر عبدالقدیر کی رہائی کا مطالبہ لیکر مسلمان اپنا موقف سخت کرلیں تو حکومت کو ان کا مطالبہ ماننا ہی پڑے گا لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہیکہ ہم اپنے ہی گھروں کی خوشیوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ ہمیں کانسٹیبل عبدالقدیر کی بیوی کی آنکھوں سے رواں ہونے والے آنسو نظر آتے ہیں نہ ہی ان کے بچوں کی آہیں سنائی دیتی ہیں۔یہاں تک کہ ہم عبدالقدیر کے درد کا احساس تک نہیں کرسکتے۔ 24 سال کی عمر سے جیل کی کوٹھری میں بند عبدالقدیر کی عمر اب 55 سال ہوگئی ہے لیکن جسمانی صحت کے لحاظ سے وہ 70 سال کی عمر کے بزرگ دکھائی دیتے ہیں۔ ذیابیطس کے نتیجہ میں ان کا ایک پیر بھی جسم سے علحدہ کردیا گیا ہے۔ امراض قلب میں بھی وہ مبتلاء ہیں۔ غرض وہ جیل میں ہر روز مرمر کے جی رہے ہیں۔ عبدالقدیر کی رہائی کیلئے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو عوام میں خصوصی آن لائن مہم چلارہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاستی گورنر مسٹر ای ایس ایل نرسمہن انسانی بنیادوں پر ایسے ضعیف قیدی کی سزاء کو معاف کرتے ہوئے اس کی رہائی کی راہ ہموار کریں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے سابق سربراہ جسٹس کاٹجو نے جو فی الوقت کیلیفورنیا امریکہ میں ہیں، اس سلسلہ میں بڑے پیمانے پر آن لائن مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی گورنر ہندوستانی دستور کی دفعہ 161 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے عبدالقدیر کی رہائی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں جسٹس کاٹجو نے مسلمانوں کے ہمدرد کی حیثیت سے مشہور چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو بھی ایک مکتوب روانہ کیا جس میں کہا کہ عبدالقدیر نے جو مختلف بیماریوں میں مبتلاء ہیں اور ایک پاؤں سے محروم ہیں، بہت سزاء کاٹ لی ہے۔ اپنی زندگی کے اہم ترین 24سال انہوں نے جیل کی تاریک کوٹھری میں گذاری ہیں۔ ایسے میں اس بوڑھے شخص کو انسانیت کے نام پر رہا کیا جائے۔ واضح رہیکہ جسٹس کاٹجو نے سال 2013ء میں بھی اپنے دورہ حیدرآباد کے دوران اس وقت کے چیف منسٹر مسٹر کے کرن کمار ریڈی سے بھی عبدالقدیر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے ایک ضعیف قیدی کو رہا کرتے ہوئے نیک نامی حاصل کرنے کے ایک سنہرے موقع کو کھو دیا۔ عبدالقدیر کی رہائی کی اپیل کو سنی ان سنی کرنے کے کچھ عرصہ بعد ہی کرن کمار ریڈی کو بڑے ہی توہین آمیز انداز میں عہدہ چیف منسٹری سے ہاتھ دھونا پڑا اگر وہ عبدالقدیر کی رہائی کو یقینی بناتے تو شاید ایسے مظلوم قیدی اور اس کے ارکان خاندان کی دعاؤں سے وہ گوشہ گمنامی اور بدنامی میں غرق ہونے سے بچ جاتے۔ اب چیف منسٹر کے سی آر کیلئے عبدالقدیر اور ان کے پریشان حال خاندان کی دعائیں حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اگر وہ عبدالقدیر کی رہائی کی گورنر سے سفارش کرتے ہیں تو نہ صرف تلنگانہ بلکہ سارے ملک میں ان کی سیاسی قدر میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔ جناب زاہد علی خاں سے فون پر بات چیت کے دوران جسٹس کاٹجو نے بتایا کہ وہ اپنے کے مکتوب کے ذریعہ چیف منسٹر کو بطور خاص ترغیب دیں گے۔