بکرما جیت کے جب تخت پر اک گڈریا بیٹھا
تقاضے حکمرانی کے اسے بھی ہوگئے معلوم
عام انتخابات کے نتائج
ہندوستان میں لوک سبھا انتخابات کا عمل اب مکمل ہو گیا ہے ۔ ملک بھر میں کئی مراحل میں 16 ویں لوک سبھا کی تشکیل کیلئے ووٹ ڈالے گئے تھے جن کی گنتی نے آج سارے ہندوستان میں کئی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔ کانگریس کو اپنی تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو وہیں کئی اور جماعتوں کا وجود ہی خطرہ میں پڑتا نظر آنے لگا ہے ۔ کانگریس نے اپنی شکست کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کا فیصلہ ہے اور وہ عوام کا فیصلہ قبول کریگی ۔ بائیں بازو کی جماعتوں کو بھی عوام کی نے عملا مسترد کردیا ہے اور وہ بھی سمٹتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ ملک میں گذشتہ دس سال سے برسر اقتدار این ڈی اے میں شامل تقریبا تمام جماعتوں کو عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان جماعتوں کے ووٹوں کی تناسب میں بڑی گراوٹ آئی ہے ۔ دوسری جانب بی جے پی اور نریندر مودی کو جو کامیابی ملی ہے وہ خود ان کیلئے بھی حیرت انگیز کہی جاسکتی ہے ۔ بی جے پی کو 543 رکنی لوک سبھا میں اپنے بل پر سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے جبکہ اس کی قیادت والے محاذ این ڈی اے کو متاثر کن کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ کانگریس کے کئی اہم قائدین کو ملک کے عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ مسترد کردیا ہے اور ان میں کئی مرکزی وزرا بھی شامل ہیں۔ عام آدمی پارٹی دہلی اسمبلی انتخابات میں حاصل کردہ اپنی کامیابیوں کو دہرانے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور خود دہلی میں اس کا پوری طرح سے صفایا ہوچکا ہے ۔ آندھرا پردیش میں سیما آندھرا میں کانگریس اسمبلی اور پارلیمنٹ کی ایک نشست بھی حاصل نہیں کرپائی ہے اور تلنگانہ میں ‘ علیحدہ ریاست کی تشکیل کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوششوں کے باوجود پارٹی کوئی متاثر کن کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی کانگریس کو بدترین شکست ہوئی ہے ۔ ملک کے اقتدار کیلئے سب سے اہم سمجھی جانے والی ریاست اتر پردیش میں بی جے پی نے سب سے زیادہ متاثر کن مظاہرہ کیا ہے اور اس نے یہاں برسر اقتدار سماجوادی پارٹی ‘ سابق میں اقتدار رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کو ایسی شکست دی ہے جس کی شائد خود بی جے پی کے کچھ گوشوں کو امید نہ رہی ہو۔ بہوجن سماج پارٹی تو ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے ۔
کانگریس کے شکست خوردہ قائدین کی فہرست بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی جو حلیف جماعتیں رہی ہیں وہ بھی اب عوام کے فیصلے پر حیرت کا شکار ہیں۔ ٹاملناڈو میں کروناندھی کی قیادت والی ڈی ایم کے کا لوک سبھا حلقوں سے عملا صفایا ہوچکا ہے جبکہ مہاراشٹرا میں این سی پی کا وجود خطرہ میں پڑتا نظر آنے لگا ہے ۔ یو پی اے یا این ڈی اے سے دور رہنے والی بیجو جنتادل نے اوڈیشہ میں اپنے دم پر 13 نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنی ساکھ برقرار رکھی ہے جبکہ بی جے پی اور مودی کی لہر کے باوجود مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس نے اور ٹاملناڈو میں چیف منسٹر جئے للیتا کی قیادت والی انا ڈی ایم کے شاندار کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ آندھرا پردیش میں تلگودیشم کو سیما آندھرا میں بی جے پی سے اتحاد کا فائدہ حاصل ہوا ہے جبکہ جگن موہن ریڈی کی قیادت والی وائی ایس آر کانگریس پارٹی توقعات کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی کارکردگی توقعات کے مطابق کہی جاسکتی ہے ۔ اس نے لوک سبھا کے علاوہ اسمبلی کیلئے بھی شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور تلنگانہ ریاست کی پہلی حکومت بنانے کی سمت گامزن ہے ۔ بہار میں نتیش کمار اپنی ساکھ بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور انہیں بھی بی جے پی نے شکست سے دوچار کردیا ہے ۔ جموں و کشمیر میں برسر اقتدار نیشنل کانفرنس لوک سبھا کی ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے ۔
یہ نتائج عوام کی برہمی کو ظاہر کرتے ہیں جو حکومت کے خلاف پائی جاتی تھی ۔ اس کے علاوہ نریندر مودی کے حق میں جو لہر میڈیا نے پیدا کرنے کی کوشش کی تھی وہ بھی کامیاب رہی ہے ۔ مودی نے جس طرح سے کانگریس کو نشانہ بنایا تھا وہ کارگر ثابت ہوا ہے ۔ این ڈی اے دور میں جو کرپشن کا عروج تھا اس کے خلاف عوام نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور ایک پہلو جو زیادہ اہم دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ عوام نے کارکردگی کا پاس و لحاظ کیا ہے ۔ اس کی مثال بنگال میں ترنمول کانگریس کی 34 اور ٹاملناڈو میں انا ڈی ایم کے کی 36 نشستوں سے کامیابی ہے ۔ یہاں ریاستی حکومتوں کی کارکردگی کو عوام نے پسند کیا ہے اور ان کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی ہے ۔ اب جبکہ انتخابی نتائج نے بی جے پی کو اقتدار حوالے کردیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی یا نریندر مودی عوام کی جانب سے وابستہ کی جانے والی امیدوں پر کس حد تک پورے اترتے ہیں۔