بلند اڑان نئے بال و پر تلاش کرو
نیا سفر ہے نئی رہگزر تلاش کرو
عام آدمی حکومت سے توقعات
ملک کی راجدھانی دہلی میں عام آدمی پارٹی نے حکومت تشکیل دیدی ۔ عام آدمی اروند کجریوال دہلی کے ساتویں چیف منسٹر بن گئے ۔ انہیں رام لیلا میدان پر منعقدہ تقریب حلف برداری میں لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ نے کجریوال اور ان کے چھ ساتھیوںکو عہدہ اور راز داری کا حلف دلایا ۔ دہلی کے عوام کی ایک کثیر تعداد نے تقریب حلف برداری میں شرکت کی اور اروند کجریوال کی تقریر کی سماعت کی ۔ کجریوال اور ان کے ساتھیوں نے تقریب حلف برداری تک پہونچنے کیلئے میٹرو ریل کا سفر کیا اور اپنے افراد خاندان کے ساتھ وہاں پہونچے تھے ۔ عام آدمی پارٹی کی حکومت کے قیام کو ملک کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے صرف چند مہینے پہلے وجود میں آکر اپنے انتخابی منشور اور پالیسیوں کے ذریعہ رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ حالانکہ اس پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن کانگریس کے آٹھ ارکان اسمبلی کی تائید کے ذریعہ اس نے حکومت تشکیل دی ہے اور اروند کجریوال نے اپنی حکومت کو عام آدمی کی حکومت قرار دیا ہے اور انہوں نے انتخابات میں اپنی کامیابی کو عام آدمی کی کامیابی ہی قرار دیا ہے ۔ اب تک ہر سیاسی جماعت کو شکست کھاتی ہے یا اقتدار حاصل کرتی ہے وہ اسے اپنی پالیسیوں یا حکومت کی ناکامیوں سے تعبیر کرتی ہے لیکن جس طرح سے اروند کجریوال ووٹ لینے سے لے کر تشکیل حکومت تک کے عمل میں رائے دہندوںکو شامل کرتے جا رہے ہیں وہ حکمرانی اور سیاسی عمل کے یقینی طور پر ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔ انہوں نے انتخابات میںمقابلہ سے قبل جو منشور تیار کیا تھا اور جس طرح سے کرپشن کے خلاف لڑائی کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بنایا تھا اس سے نہ صرف دہلی کے عام میں بلکہ سارے ملک کے عوام میں ان سے امیدیں وابستہ ہوگئی ہیں۔ اب جبکہ وہ حکومت تشکیل دے چکے ہیں اور عام آدمی کیلئے کام کرنے کا اعلان کرچکے ہیں ایسے میں ان سے وابستہ امیدیں اور بھی بڑھ گئی ہیں اور آنے والا وقت یہ بتائیگا کہ کجریوال عوام کی امیدوں کو کس حد تک پورا کرپاتے ہیں۔ اروند کجریوال نے حلف لینے کے فوری بعد کانگریس ‘ بی جے پی اور دوسری جماعتوں سے اپیل کی کہ اگر وہ درست سمت میں کام کرتے ہیں تو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوتے ہوئے ان کی تائید و حمایت کی جائے ۔
تاہم یہ بات یقین سے نہیں کی جاسکتی کہ واقعی یہ جماعتیں کجریوال یا ان کے اقدامات کی تائید کرینگی ۔
کجریوال کا کہنا ہے کہ دو ڈھائی سال قبل انا ہزارے نے کہا تھا کہ سیاست ایک گندی چیز ہے ۔ دو سال کے عرصہ تک سماجی کارکنوں نے کرپشن کے خاتمہ کیلئے ہر ممکن جدوجہد کی تھی اور جن لوک پال بل منظور کروانے کیلئے ہر طریقہ اختیار کیا تھا لیکن یہ سب ناکام ہوگئے تھے ۔ اس وقت انہیںاحساس ہوا تھا کہ جب تک ملک کی سیاست میں تبدیلی نہیںآتی اور سیاسی نظام کو بدلا نہیں جاتا اس وقت تک کرپشن کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ یقینی طور پر کرپشن کے خاتمہ اور سماجی برائیوں کی روک تھام میںملک کا سیاسی نظام ہی رکاوٹ بنتا رہا ہے ۔ کجریوال اپنے عزم اور ارادوں کے مطابق اگر سیاسی ڈھانچہ میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ملک کے عوام کی تائید انہیںملتی ہے تو یقینی طور پر کرپشن اور دیگر سماجی برائیوں کو ختم کرنے میںمدد مل سکتی ہے ۔ کرپشن ہندوستانی نظام اور خاص طور پر سیاسی نظام میں اس حد تک سرائیت کرگیا ہے کہ ملک کی سرحدات کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کے تابوت کی خریداری میںکرپشن ہے اور سابق فوجیوں کیلئے تعمیر کی جانے والی آدرش سوسائیٹی بھی سیاست دانوں کے کرپشن کا شکار ہے ۔ کرپشن ایک ایسی لعنت ہے جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلی کرتی جا رہی ہے اور اس لعنت کو ختم کرتے ہوئے ملک کی ترقی کی راہیںمزید ہموار کی جاسکتی ہیں ۔ اس لعنت کے خاتمہ کیلئے یقینی طور پر سیاسی عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے جس کا کانگریس ‘ بی جے پی اور دوسری تقریبا تمام سیاسی جماعتوں فقدان ہی نظر آیا تھا ۔ اگر اروند کجریوال اس عزم کے ساتھ حکمرانی کرتے ہیں اور نظام سیاست میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ دہلی کے عوام نے جن امیدوں کے ساتھ انہیںووٹ دیا ہے ا ن کی تکمیل بھی اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ انتخابی وعدوں کی تکمیل کجریوال کیلئے آسان نہیںہوگی ۔ کانگریس اور
بی جے پی کی جانب سے ان کوششوں میں رکاوٹ پیدا کی جاسکتی ہے ۔
دہلی کے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کجریوال کیلئے ایک چیلنج ہوگی ۔ اس کیلئے سیاسی حلقوں سے رکاوٹیںپیدا ہوہی سکتی ہیں لیکن بیوروکریسی بھی اس میں رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بیوروکریسی کو کس حد تک سدھارنے میںکامیاب ہوتے ہیں۔ جب تک افسر شاہی کو حقیقی معنوں میں تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں کیا جاتا اس وقت تک عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی آسان نہیںہوگی ۔ بہرحال کجریوال دہلی کے چیف منسٹر بن چکے ہیں اور دہلی کے عوام کیلئے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔ کجریوال کو چاہئے کہ وہ انہیںجو موقع ملا ہے اس سے استفادہ کریںاور عوام کو بنیادی سہولتیںفراہم کرتے ہوئے نہ صرف دہلی کے عوام کو بلکہ سارے ملک کے عوام کو حکمرانی کے ایک نئے انداز سے واقف کروائیں۔ دہلی میںحکمرانی کجریوال کیلئے ایک ایسا ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے جس سے وہ سارے ہندوستان میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرسکتے ہیں اور دوسری جماعتوں اور حکومتوں کیلئے بھی ایک مثال پیش کرسکتے ہیں۔ تبدیلی کی جو لہر دہلی سے شروع ہوئی ہے اس کو وسعت دیتے ہوئے ہندوستان بھر کے عوام کو بیدار کیا جاسکتا ہے ۔ ایسا کرنا خود ملک کے عوام کیلئے سودمند ثابت ہوگا ۔
کانگریس کیلئے راہول گاندھی کے نسخے
ملک کی چار ریاستوں میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے بدترین شکست کے بعد ایسا لگتا ہے کہ راہول گاندھی آئندہ لوک سبھا انتخابات تک پارٹی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کانگریس کے 12 چیف منسٹروں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہوئے پارٹی کو بہتر بنانے کی حکمت عملی پر غور کیا اور پارٹی کی انتخابی کارکردگی کو بہتر بنانے کچھ نسخے تجویز کئے ہیں۔ ان میں عوام کو بہتر سہولتوں کی فراہمی ‘ عوامی نظام تقسیم میں اصلاحات اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانا شامل ہے ۔ اس کے علاوہ راہول گاندھی نے کانگریس اقتدار والی ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ ماہ فبروری کے اختتام تک اپنی اپنی ریاستوں میںلوک آیوکت کا تقرر عمل میں لائیں ۔ راہول گاندھی دو محاذوں پر سرگرم نظر آتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام میںیہ تاثر پیدا کیا جائے کہ کانگریس پارٹی کرپشن کے خلاف حقیقی معنوں میں جدوجہد کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ چاہتے ہیں کہ قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے عام آدمی کو راحت دی جائے کیونکہ پارٹی کا خیال ہے کہ چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شکست کی وجہ مہنگائی ہی ہے ۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد کو اجاگر کرنے کیلئے ہی راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں جن لوک پال بل کی منظوری کو یقینی بنانے اقدامات کئے تھے اور اب وہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے کانگریس حکومتوں پر زور دے رہے ہیں۔ راہول گاندھی کو یہ کام بہت پہلے کرنے چاہئے تھے اور اب جبکہ انتخابات کیلئے بہت کم وقت رہ گیا ہے ان کی یہ کوششیں شائد زیادہ سود مند اور ثمر آور ثابت نہ ہونے پائیں۔ انہوں نے اگر یہ کوششیں صرف انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے شروع کی ہیں تو انہیںاس کا فائدہ نہیںہوگا ۔ انہیں انتخابات کو اور انتخابی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں ان دو مسائل کی یکسوئی کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی ۔ کرپشن ہندوستان کی جڑوں تک میں سرائیت کر گیا ہے اور مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دو بھر کردیا ہے ۔اگر وہ ان دو مسائل کو حل کرنے میںکامیاب ہوتے ہیں تو یقینی طور پر ملک کے عام کو راحت ملے گی اور اس کا اثر ان کے ووٹوںپر بھی پڑسکتا ہے لیکن اس سب کیلئے حقیقی معنوں میںسنجیدگی بہت ضروری ہے ۔