جہیز کی لعنت کا خاتمہ خوشحال معاشرہ کیلئے ضروری، روزنامہ سیاست کے ’’دوبدو‘‘ جیسے پروگرامس وقت کی اہم ضرورت
حیدرآباد۔ 24 ستمبر (محمد ریاض احمد) ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے بشمول سارے ملک میں مسلمان اپنی شادیاں سادگی سے انجام دینا شروع کریں تو معاشرہ میں ایک صالح انقلاب برپا ہوجائے گا۔ مسلمانوں کی شادیوں کے بارے میں عام طور پر یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ان میں بے جا اسراف کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے والدین پر شادی کے دن ہزاروں مسلمانوں کی پُرتکلف ضیافت کی شرط عائد کرتے ہوئے انہیں قرض کے جال میں ڈھکیلا جاتا ہے۔ جہاں تک حیدرآبادی شادیوں کا معاملہ ہے، ان شادیوں میں جو اسراف کیا جاتا ہے، شاید وہ ہندوستان تو دور دنیا کے کسی بھی ملک میں بھی نہیں کیا جاتا ہوگا۔ ہمارے شہر میں بعض شادیوں میں 30 تا 40 ڈشیس سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ نتیجہ میں مہمان خود یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ آخر کھائیں تو کیا کھائیں۔ ایسے میں بڑی مقدار میں کھانا اور دیگر غذائی اشیاء ضائع ہوجاتی ہیں۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ حالیہ کچھ برسوں سے آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی شروع کردہ تحریک کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ خاص طور پر خلیجی ممالک میں برسرروزگار ہندوستانی شہریوں پر سیاست کی تحریک کا اچھا اثر ہوا ہے۔ لوگ شادیوں میں بیجا رسومات غیرضروری اسراف گھوڑے جوڑے اور لین دین سے گریز کرنے لگے ہیں۔ واضح رہے کہ غیرمسلموں کی طرح جہیز کی لعنت میں مسلمان جب سے مبتلا ہوئے ہیں، ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کی بھلائی سنت نبویؐ کے مطابق شادیوں میں سادگی اپنانے میں مضمر ہے۔ مسلم معاشرہ میں صرف اور صرف جہیز کے باعث لاکھوں لڑکیاں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں اور فکرمند ماں باپ اپنی بیٹیوں کی شادیوں کی آرزو لئے اس دارِ فانی سے کوچ کئے جارہے ہیں۔ یہ ایسا سنگین مسئلہ ہے جس پر بالی ووڈ اداکار عامر خان نے بھی اپنے مقبول عام پروگرام ’’ستیہ میوجیتے‘‘ پر ایک خصوصی پروگرام پیش کیا تھا۔ اس پروگرام میں عامر خان نے ناظرین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر کسی کے دل میں شادی کا ارمان ہوتا ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی وہ اپنا گھر بسانے اور اسے اپنے خوابوں سے سجانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کو اچھا شوہر، اچھا سسرال ملے وہ جہاں جائے خوش و خرم رہے، لیکن اپنی لڑکی کے ہاتھ پیلے کرنے کیلئے ماں باپ کو جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو مشکلات درپیش آتی ہیں
س کا احساس صرف غریب اور متوسط خاندانوں کے والدین ہی کرسکتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو دولہن بنانے کے خواب دیکھنے والے بے شمار والدین خوابوں کی عدم تعمیل پر ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اپنی فلم ’’پی کے‘‘ کے ذریعہ ہندوستانی معاشرہ میں پائی جانے والی توہم پرستی اور خود ساختہ بھگوانوں کی دھجیاں اُڑانے والے عامر خاں کے خیال میں معاشرہ میں عوام کو کچھ ایسا انقلاب قدم اٹھانا ہوگا جس سے شادیوں پر ہونے والی سادے بازی کا خاتمہ ہوجائے۔ ویسے بھی بیجا رسومات، غیرضروری اسراف، شادیوں میں ایک سے ایک لوازمات کے مطالبات، سودے بازی ہی تو ہے، لیکن عامر خاں ملک کے مختلف حصوں جیسے مدھیہ پردیش کے برہان پور، حیدرآباد (تلنگانہ) اور ممبئی (مہاراشٹرا) کے مسلمانوں میں اس سنگین مسئلہ کے حل کیلئے پیدا ہورہے شعور سے کافی مطمئن ہیں۔ ستیہ میوجیتے کے گزشتہ ایڈیشن میں عامر خان نے ہمارے معاشرہ کے اس سُلگتے مسئلہ کو انتہائی موثر انداز میں پیش کرتے ہوئے ساری قوم کو یہ پیام دیا ہے کہ شادیوں میں سادگی سے دولہا دولہن اور ان کے خاندانوں میں اطمینان کی ایک ایسی لہر پیدا ہوتی ہے جو سکون و راحت کا باعث بنتی ہے۔ اس پروگرام میں ممبئی کی ایک شادی کا منظر پیش کیا گیا جہاں شادی کے دن مہمانوں کی صرف ایک شربت سے تواضع کی گئی۔ دولہن کے ماں باپ سکندر اور خالدہ کے علاوہ دولہے کے والدین ریحانہ اور مقصود کا کہنا تھا کہ کم خرچ شادیوں کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ماں باپ قرض کے بوجھ سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ گھر میں ایسی شادیاں ہوں تو معاشرہ میں ایک صحت مند انقلاب برپا ہوگا۔ عامر خاں نے اپنے پروگرام میں تنظیم خدام المسلمین برہان پور مدھیہ پردیش کے محسن امیدی اور ممبئی کے اختر کاظمی سے بات کی۔ اختر کاظمی کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے برہان پور کے مسلمانوں کی تقلید کی جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ پروگرام میں موجود دو خاتون ٹیچرس شہناز اور صوفیہ سے جو اس تنظیم سے وابستہ ہیں، عامر خاں نے اس تحریک میں حصہ لینے کی وجہ دریافت کی تب ان لوگوں نے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ لڑکیوں کی شادیوں کے موقع پر ماں باپ کو کس طرح مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے۔ اگر لوگ شادیوں میں سادگی اختیار کریں گے۔ بیجا رسومات سے گریز کیا جائے تو کسی لڑکی کے ماں باپ کو اس کی شادی کے موقع پر پریشانی نہیں ہوگی۔ انہیں کسی پر بار نہیں پڑے گا۔ صوفیا اور شہناز چاہتی ہیں کہ جس طرح ماں باپ لڑکے کی پیدائش پر خوش ہوتے ہیں، اسی طرح لڑکی کی پیدائش پر بھی خوشیاں منائیں اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ان پر اپنی بیٹیوں کو جہیز دینے کا بوجھ نہیں رہے گا۔ برہان پور مدھیہ پردیش کے رہنے والے اور تنظیم خدام المسلمین کے محسن امیدی کے مطابق ان کے شہر میں شادیاں بڑی شادگی سے انجام دی جاتی ہے، وہاں امیر اور غریب کی شادی میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجہ میں برہان پور میں گزشتہ 60 برسوں سے جہیز کیلئے ایک لڑکی نے بھی خودسوزی نہیں کی۔ ممبئی اور برہان پور میں جو شادیاں ہوتی ہیں ان میں باجا گاجا، آتش بازی جیسے تماشے نہیں ہوتے، مساجد میں نکاح ہوتے ہیں اور شادیاں بھی دن کے اوقات میں کی جارہی ہیں۔ بہرحال شادیوں میں سادگی مسلمانوں کی معاشی حالت سدھارنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔