اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 9؍ڈسمبر کو یوم عالمی انسداد رشوت ستانی منایا جاتا ہے ۔ ساری دنیا میں بدعنوانی اور رشوت خوری کی وجہ سے ہونے والی خرابیوں کا سب سے زیادہ اثر ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو ہوتا ہے ۔ اقوام متحدہ نے تمام جمہوری ملکوں میں تیزی سے پھیلتی رشوت ستانی کو روکنے کے لئے اقدامات کئے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے 31؍ اکٹوبر 2003 کو رشوت کے خلاف مہم شروع کرتے ہوئے اقوام متحدہ کنونشن منظور کیا تھا اور 9؍ڈسمبر کو ہر سال رشوت ستانی کے خلاف ایک یوم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ان برسوں میں عالمی سطح پر رشوت کے خاتمہ کے لئے جاری کوششوں میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ۔ ساری دنیا میں حکومت کے خلاف بیداری مہم کے باوجود یہ رپورٹ افسوسناک ہے کہ ساری دنیا میں ہر سال ایک بلین امریکی ڈالر کی رشوت کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ رشوت ستانی کی وجہ سے ہی ہر ملک میں اس کی جی ڈی پی پر 17 فیصد کا اثر پڑتا ہے ۔ دنیا میں پانچ ملکوں کو سب سے زیادہ رشوت ستانی سے متاثر ممالک قرار دیا گیا ہے ۔ ان میں صومالیہ ‘ شمالی کوریا ‘ سوڈان ‘ افغانستان اور جنوبی سوڈان شامل ہیں ۔ ڈنمارک ‘ نیوزی لینڈ ‘ فن لینڈ ‘ سوئیڈین ‘ ناروے اور سوئزرلینڈ بھی رشوت ستانی کے لئے بدنام ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں ۔
عالمی سطح پر اقوام متحدہ کو ایک طاقتور ادارہ کی حیثیت حاصل ہے ۔ اس نے رشوت ستانی کے معاملہ سے ساری دنیا کے ملکوں میں امن و امان ‘ حفظان صحت ‘ انسانی حقوق ‘ دہشت گردی کے معاملوں پر نظر رکھنے ان کے خلاف فیصلہ کرنے کے اختیارات رکھنے کے باوجود اب تک متاثرہ ملکوں کو کوئی راحت نہیں پہونچائی ‘ اقوام متحدہ کو مشرق وسطیٰ میں ہونے والی ظلم و زیادتیوں کی جانب توجہ دینے کی اس لئے توفیق نہیں ہوتی کیونکہ بڑی طاقتوں کے ہاتھوں وہ مجبور ہے ۔ اقوام متحدہ کے آئندہ سال اپنی انسانی امداد کی سرگرمیوں کے لئے 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے ۔ امداد بڑے ملکوں سے ہی حاصل ہوتی ہے جو ممالک اقوام متحدہ کو امداد دیتے ہیں اگر ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا رشوت ستانی کے معاملوں میں ملوث ہوں تو ان کے خلاف کارروائی سے اقوم متحدہ گریز کرے گا ۔ اقوام متحدہ بظاہر ایک عالمی نگرانکار ادارہ ہے مگر اس کی اپنی مجبوریاں اور حدود ہیں ۔ ان حدود سے وہ تجاوز نہیں کرسکتا ۔ اس کو امدادی کاموں کی انجام دہی کیلئے 16 ارب ڈالر درکار ہیں جن کو وہ شام سے نقل مکان کرنے والے افراد پر خرچ کرتے ہیں ۔ شام کے اندر بے گھر ہونے والوں کو امداد فراہم کرنے میں دلچسپی ہے مگر شام کی صورتحال یا اس طرح کی امداد کی ضرورت نہ پیدا ہونے کے لئے امن اقدامات کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ اگر شام ‘ فلسطین یا مشرق وسطی کے علاوہ کسی بھی مظلوم ملک میں ظلم زیادتی کو روکا جائے تو کسی بھی علاقہ میں عوام کو نقل مکان کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ اس دنیا کے ہر خطہ کو امن کا گہوارہ بنایا جائے تو انسانی مسائل ہرگز پیدا نہیں ہوں گے ‘ جس طرح عالمی سطح پر رشوت ستانی کے خاتمہ میں ناکام اقوام متحدہ کو دیگر مسائل پر قابو پانے میں کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔ آج دنیا کا کوئی بھی ملک رشوت ستانی کے مسئلہ سے پاک نہیں ہے ۔
ہر ایک کو داخلی طور پر اپنے جمہوری اداروں کی تباہی ‘ سست معاشی ترقی اور دستور و قوانین کو پامال کرنے والے واقعات نے جمہوری بنیادوں کو کمزور کر دیاہے ۔ انتخابی عمل میں بڑے پیمانے پر رشوت خوری ہوتی تو انتخابات کے صاف شفاف ہونے کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی رشوت ستانی کی سطح سنگین حد تک بڑھی ہوئی ہے ۔ آج اقتدار پر قابض طاقتوں نے رشوت اور دولت کے دم پر ہی تشہیری حربے کے ذریعہ عوام کے ذہنوں کو بدلنے میں کامیابی حاصل کی تھی نتیجہ میں جمہوری و دستوری اداروں کی بنیادوں کو کمزور کرنے والی حرکتوں میں تیزی پیدا ہوئی ہے ۔ کیا اقوام متحدہ اپنی انسداد رشوت ستانی مہم کے تحت حکومت ہند کا عرصہ حیات تنگ کرسکتا ہے یہ سوال اپنی جگہ اس لئے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ان دنوں ہندوستان میں دولت کے بل پر اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ رشوت کے خاتمہ کی جگہ اس لعنت کو فروغ دینے والوں کی صف میں کئی سفید پوش لوگ کھڑے دکھائی دیں گے۔ ہندوستان میں رشوت ستانی کے خلاف مہم چلانے کا وعدہ کرنے والی مودی حکومت بھی اب بے بس نظر آرہی ہے۔ عوام کو حق معلومات قانون جیسا مضبوط ہتھیار دینے کے باوجود بعض اوقات عوام کو اِس قانون سے استفادہ کا موقع نہیں دیا جاتا۔ عالمی سطح پر رشوت ستانی کے انسداد کے لئے اقوام متحدہ کو اپنے طور پر ہی مؤثر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔