ظلم کی داستانِ غم

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

دنیا تیزی کے ساتھ ترقی کی سمت رواں دواں ہے، جو ترقیات کبھی صدیوں میں ناممکن ہوا کرتے تھے وہ آج کی تیز تر ترقیات نے مہینوں میں منزل کو پالینے کی راہیں ہموار کی ہیں، آسمان کی وسعتوں میں سمندروں کی گہرائیوں میں کیا کچھ ہے اس کو پانے کی مہم بڑی تیز ہے، سائنسی تحقیقات نے کئی ایک نئی نئی ایجادات سے ہماری سماجی و معاشرتی گود کو بھر دیا ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے بہت کچھ نعمتیں پاتے ہوئے ہم نے اتنا کچھ کھودیا ہے کہ وہ ساری عیش و آرام و راحت کی چیزیں جو مادی زندگی کے فاضل وسائل ہیں، ہمارے کھونے کی تلافی نہیں کرسکتے، جس اہم حقیقت اور سچائی کو ہم نے کھو دیا ہے وہ ہے انسانیت، انسانیت سسک رہی ہے، بلک رہی ہے، دم توڑ رہی ہے، انسانیت ہی جب ناپید ہو جائے تو وہ کونسی شئے ہے جو اس کی تلافی کرسکے، ترقیات کی بدولت کچھ نہ پاتے اور انسانیت باقی رہتی، تو یہ اتنا عظیم نقصان نہیں تھا جتنا عظیم نقصان ہم نے بہت کچھ پاکر انسانیت کو کھو کر کیا ہے، اس سرزمین کا وہ کون سا حصہ ہے جہاں انسان آسودہ ہیں، ہر جگہ بے انصافی ہے، ظلم و زیادتی ہے، لوٹ کھسوٹ ہے،

انسانیت کی تحقیر و بے آبروئی ہے، مار دھاڑ ہے، قتل و خون ہے، کیا نہیں ہے جس کو قلمبند کیا جائے اور جس پر ماتم کیا جائے اور خون کے آنسو روئے جائے، ہندوستان ہو کہ پاکستان یا عرب ممالک ہوں کونسی جگہ ہے جہاں انسانوں کو چین و سکون نصیب ہے، ہر جگہ ظلم نے اپنے پائوں پھیلائے ہیں، سارا سماج و معاشرہ ظلم کی چکی میں پس رہا ہے، کہیں انفرادی ظلم ہے، کہیں اجتماعی ظلم ہے، انفرادی ظلم بھی جگہ جگہ بکثرت ہونے سے اس کی حیثیت بھی ایک طرح سے اجتماعی ظلم کی بن گئی ہے، اجتماعی ظلم تو پھر اجتماعی ظلم ہے، جس کو حکومتیں یا حکومتوں کے کارندے انجام دیتے ہیں، ظلم ڈھاتے ہوئے ان کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ ظلم کی زد میں آنے والا بچہ ہے یا بوڑھا، کمزور و بیمار ہے یا طاقتور، عورت ہے یا مرد، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ظلم ڈھائے جاتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظلم ڈھانے ہی میں ان کو مزہ آتا ہے، اور اس سے ان کی روح کو غذا ملتی ہے، انسانی اقدار بدل گئے ہیں، کبھی ظلم گھنائونا جرم سمجھا جاتا تھا اور قال قال ہی کہیں ظلم دیکھنے میں آتا تھا، اور اب صورتحال یہ ہے ہر جگہ دیکھنے کو ظلم کے کھیت تیار ہیں، عدل و انصاف کی، مروت و روا داری کی، محبت و پیار کی کھتیاں بالکل ناپید ہیں، اور کہیں دکھائی پڑتی ہیں تو ان کی حیثیت سمندر کے بالمقابل پانی کے کچھ قطروں سے بڑھ کر نہیں۔آخر انسانیت کو کہاں ڈھونڈا جائے،اور کہاں تلاش کیا جائے اس کرہ ارض پر تو اب یہ بہت عنقا ہے،کہا جاتا ہے کہ اس عالمی ظلم کے پیچھے کچھ انسان دشمنوں کی سازشیں ہیں، کوئی انسان ہو اور پھر وہ انسان دشمن ہو عقل قبول نہیں کرتی، لیکن کیا کیا جائے کہ عقل قبول کرے یا نہ کرے یہ مناظر تو اب کرہ ارض کا حصہ بن گئے ہیں، اب شاید پرانی ڈکشنریز(لغتوں) کو خاکستر کر دیا جائے پھر سے نئی ڈکشنریز (لغتیں) مرتب کی جائیںجس میں ظلم کو انصاف کا غیر انسانی رویوں کو انسانیت کا نام دے دیا جائے۔

ہندوستان کی سرزمین جو برسوں سے اعلیٰ اقدار کی پاسدار رہی ہے اب وہ بھی داغ دار ہو رہی ہے، دنیا میں اگر کوئی انصاف پسند ہو تو شاید ہم اہل ہند کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے، جب ساری دنیا ہی ظلم پر کمر بستہ ہو اور ظلم ہی کو اعلیٰ قدر مان لیا گیا ہو تو پھر ظلم کا گھنائونا اور کرب آمیز چہرہ دکھانے میں شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے، ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے مسلم و غیر مسلم بھائیوں نے جو ظلم سہے تھے اور جو کچھ ان کا خون آزادی حاصل کرنے کے لئے بہا تھا وہ یقینا قابل قدر تھا، قابل عظمت تھا کہ ایک اہم مقصد کے حصول کیلئے ظلم سہا گیا تھا اور خون بہایا گیا تھا، تاریخ کے اوراق میں ان حادثات کو جو آزادی کے عنوان سے سہے گئے تھے زرین باب کی حیثیت سے رقم کر دیا گیا ہے، آنے والے انسان ان پر فخر کریں گے اور ان کی بہادری کو سراہیں گے اور ان کے جیالے پن کی داد دیں گے، لیکن یہ خون جو انسانیت پر ظلم کرتے ہوئے بہایا گیا ہے بے رحمی کے ساتھ بچوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ کیا گیا ہے، بچوں کا قتل و خون کر کے مائوں کی گود کو اجاڑا گیا ہے،حاملہ خواتین کو قتل کرنے کے ساتھ رحمِ مادر میں پلنے والی جانوں کو خاک آلود کیا گیا ہے، نوجوانوں کو قتل کر کے بوڑھے اور ضعیف ماں باپ کا اور کمزورو ناتواں بچوں کا سہارا چھین لیا گیا ہے، شوہروں کی جان لے کر ان کی بیویوں کی مانگ کو جو سیندور محروم کر دیا گیا ہے، اور ان کا سہاگ اجاڑکر ان کو بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، آخر اس کو کیا نام دیا جائے، کیا یہ بھی تاریخ کا کوئی روشن باب بن سکتا ہے، پہلے کہیں کہیں ظلم ہوا کرتا تو فوری اس کی تلافی بھی ہوجایا کرتی تھی، خود ظلم کرنے والے کو شرمندگی ہوتی تھی اور جب تک اس کی تلافی نہ کر لیتا اس کو چین نہیں آتا تھا، حکومتیں بھی اس ظلم کی پاداش میں ہونے والے نقصان کا بڑی حد تک تلافی کرکے انسانیت کا ثبوت دیا کرتے تھے، ا

ور اب صورتحال یہ ہے کہ ظلم کرنے والے ظلم پر فخریہ انداز کے ساتھ خوش ہیں اور اسے اپنے لئے تمغہء افتخار گردان رہے ہیں، اس وقت ہر کوئی تماشائی ہے، انسان بھی انسانیت کا جوہر رکھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں اور ساری حکومتیں بھی تماشہ بیں بنی ہوئی ہیں، کوئی نہیں ہے جو ظلم کا ہاتھ تھام سکے ، مصر و شام، افریقہ وعراق،فلسطین و افغانستان، بنگلہ دیش و پاکستان،میانمار اور خود ہندوستان میں ظلم کی کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے، ہونا تو یہ چاہیئے کہ ظالم کا ہاتھ تھاما جائے اور اس پر روک لگائی جائے نہ کہ اس کا ہاتھ مضبوط کر کے اس کو مزید ظلم پر ابھارا جائے۔ لیکن آج ہو یہی رہا ہے کہ لوگ ظالم کے ظلم میں مددگار ہیں، ظلم کے خلاف مظلوموں کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے حالانکہ پیارے نبی سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے جو موجودہ حالات میں اتنا اہم ہے کہ اسے پلکوں پر سجالیا جائے اور دل کی گہرائیوں میں سمو لیا جائے۔ (سلسلہ صفحہ 5 پر)
ارشاد ہے ’’انصر اخاک ظالما او مظلوما‘‘کہ تم ظالم کی بھی مدد کرو اور مظلوم کی بھی، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ مظلوم کی مدد کرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد یہ بات ہماری فہم سے ماوراء ہے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیاری بات فرمائی ہے وہ اس وقت سنہری حروف میں کندہ کر کے ساری دنیا کی پیشانی پر اور ساری حکومتوں کے ایوانوں میں آویزاں کرنے کی ضرورت ہے ’’تحجزہ اوتمنعہ من الظلم فان ذلک نصرہ‘‘(صحیح بخاری؍۶۹۵۲) یعنی ظالم کی مدد سے مراد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ تھاما جائے اور اس کو ظلم سے روکا جائے یہی اس کی مدد ہے۔یہ اتنا پیارا جملہ ہے جس پر عمل کرنے سے دنیا سے ظلم کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔
دنیا میں موجود ساری حکومتوں کو خواہ وہ جمہوری طرز کی ہوں خواہ بادشاہی طرز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کی کھل کر حمایت کریں، حق کی تائید کریں اور حق کے ساتھ تعاون کریں خواہ اہل حق مادی و ظاہری اعتبار سے کتنے کمزور وبے بس ہی کیوں نہ ہوں اس کے برخلاف جو ظالم ہیں خواہ وہ کوئی ہوں کسی بھی مذہب سے انکا رشتہ ہو خواہ وہ کتنے ہی طاقتور اور ظاہری اسلحہ سے لیس ہوں ان کے خلاف ایک آواز ہوں اور ان کی مخالفت پر سب کمر بستہ ہوں اور ان کے ظلم کے خلاف جس طرح کی جدوجہد کرتے ہوئے مظلوموں کا ساتھ دیا جاسکتا ہے وہ کر گذریں ، مظلوموں کی مدد کیلئے اپنے وسائل و ذرائع کے مطابق جو کچھ کیا جاسکتا ہے اس کو عملاً پورا کرنے کا آج ہر فرد پابند ہے، ظلم کا ساتھ دینے یا اپنے بھائی پر ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش رہنے میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔
یوں سمجھا جائے کہ ایک مکان کو آگ لگ گئی ہے آگ بجھانے کے لئے کوئی منصوبہ بنایا جائے یا حکومتی سطح پر حکومت کی مشنری سے آگ بجھانے کی ٹیم کا انتظار کیا جائے تو اس سے سارا مکان جل کر خاکستر ہو جائے گا، کسی منصوبہ پر کوئی غور و خوض یا مدد کے لئے کسی کا انتظار کرنے کے بجائے اس طرح کی کوئی مدد آنے سے قبل موجود افراد میں سے ہر ایک فرد اپنے سے جو کچھ بن پڑتا ہو وہ کر گذرے اور ایک بالٹی ہی کیوں نہ ہو پانی لے کر آگ بجھانے میں اپنا حصہ ادا کرے، ساری دنیا ایک طرح سے گویا ایک مکان ہے اور اس وقت اس میں ظالموں نے ظلم کی آگ بھڑکا رکھی۔ زمین کے کسی خطے میں کیوں نہ رہتے ہوں سارے انسانوں کا انفرادی و اجتماعی فریضہ ہے کہ وہ اس بھڑکائی گئی ظلم کی آگ کو بجھانے میں اپنا کردار پیش کریں، اور ساری حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کے ہمنوا بنے ظالموں کے نہیں، اس میں غفلت برتی جائے تو پھر ’’آج وہ کل ہماری باری ہے‘‘ کے مصداق ہم بھی اس ظلم کی آگ میں جھونکے جاسکتے ہیں۔