انسانی سماج وہ ہے جہاں انسان رہتے ہیں بھیڑئے اوردرندے نہیں،انسان اس وقت تک انسان ہے جب تک کے وہ انسانی احترام پر یقین رکھتاہو،انسانی احترام ختم ہوجائے تو انسانیت کا خاتمہ ہوجاتاہے،پھرایساسماج انسانی سماج کہلائے جانے کے لائق نہیں رہتا۔انسانی اقدارکی پامالی انسانی سماج کیلئے باعث شرم ہے،خالق ارض وسما کی معرفت سے محروم اکثر خلق خدا کی عظمت واحترام سے عاری رہتے ہیں۔انسانی سماج میں رہتے بستے تو انسان ہی ہیں لیکن انسانی سماج جب مذہب بیزارہوجائے یا برائے نا م مذہب سے تعلق رہ جائے یا مذہب کے نام پرظلم وتشدد عام ہو جائے تو اس سماج میں حقیقی انسان تھوڑے اورانسان نمادرندے اوربھیڑئے زیادہ ہوجائیں گے۔انسانوں کو اللہ سبحانہ نے دل دیا ہے ،آنکھ دی ہے،دل سے انسان ان حقائق تک رسائی حاصل کرسکتاہے بظاہر جس کو آنکھ نہیںدیکھ سکتی،آنکھ تو صرف وہ چیزیں دکھاتی ہے جو اسکے احاطہ بصارت میں آسکتی ہیں۔کائنات میں مظاہر قدرت کا ایک جہاں آبادہے جسکا مشاہدہ کرکے انسان اپنے مقصدتخلیق کو پاسکتاہے،مزید برآں دعوت حق کو سمجھنے ،پیغام حق کو سننے ،پیغام حق(قرآن مجید)میں معرفت حق کیلئے جو دلائل وبراہین دئیے گئے ہیں اورروشن شواہدبصارت وبصیر ت کیلئے کھولے گئے ہیں ان سے استفادہ کرکے انسان حقیقی معنی میں رب کائنات کی معرفت حاصل کرسکتا ہے اورحقیقی معنی میں انسان کہلائے جانے کا مستحق بن سکتاہے۔ اللہ سبحانہ کی بخشی ہوئی ان نعمتوں سے جو استفادہ نہ کرسکے وہ چوپایوں سے بھی زیادہ گیا گزراہوجاتاہے(مفہوم آیت ۱۷۹؍ الاعراف )چوپائے پھر بھی غنیمت ہیں جو کسی نہ کسی درجہ میں نفع ونقصان کا ادراک کرلیتے ہیں ،اچھے برے میں فرق وامتیاز کا شعوررکھتے ہیں،کونسی شئی مفیداورکونسی شئی مضرہے اسکی سمجھ رکھتے ہیں،اوروہ اپنے جیسے دیگرحیوانوں پر رحم کھاتے ہیں،انکی جنس کاکوئی فردمصیبت کا شکارہوجائے تو اس جنس کے سارے حیوانات اسکی مددکیلئے جمع ہوجاتے ہیں،اوراسکے لئے اپنے سے جو کچھ بن پڑتا ہو کر گزرتے ہیں۔ لیکن انسان اپنے جیسے انسانوں پر ظلم ڈھائے وہ انسان کیسے کہلاسکتاہے؟ہندوستان سیکولربنیادوں پر قائم ہے ،اسکا خصوصی امتیازاسکا سیکولر کردارہے،ہندوستان میں مذہب حق اسلام کے نام لیواؤں کے سواکئی ایک اور مذاہب کے پرستار انسانی بنیادوں پرایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ،ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل پیرارہتے ہوئے زندگی گزارنے کا دستوراجازت دیتاہے۔انسانی احترام اورتمام مذاہب کے مذہبی شعائرکے احترام کو دستورمیں بنیادی حق کے طورپر تسلیم کیا گیاہے،ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل پیرارہتے ہوئے دستورکے چوکھٹے میں اپنے مذہب کے پر چارکی اجازت بھی حاصل ہے۔انسانی احترام ہر حال میں مقدم ہے ، جان ومال ،عزت وآبرو کا تحفظ انسانی معاشرہ کی اولین بنیادہے۔ملک کا دستوربھی اسکو بنیادی حیثیت سے مانتاہے ،اس بنیادکو متزلزل کردیا جائے تو ملک انسان نما درندوں کی آبادی میں تبدیل ہوجائے گا،انسان نما درندوں نے تشدد،تعصب اورنفرت کا لبادہ اوڑھکرملک کے سیکولر کردارکو داغدارکرنے کی اس وقت منصوبہ بندمہم چھیڑرکھی ہے۔عداوت ودشمنی نے انکو اندھا ،بہرہ کردیاہے،ہندوستان کا قانون کسی ملزم پر جب تک کے اسکا جرم عدالتی تحقیقات سے ثابت نہ ہوجائے کوئی حدجاری نہیں کرتا،ثبوت جرم کے باوجود سزادینے کا کسی اور کو حق نہیں دیتایہی قانون دنیا کے تمام ملکوں میں رائج ہے،لیکن ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں شک وشبہ کو بنیادبناکر کسی قانونی تحقیق وتفتیش اور عدالتی چارہ جوئی کے بغیر انسان نما بھیڑیوں کی جانب سے دن دھاڑے قتل وخون کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ ۲۲؍ماہ میں گائے کے نام پر تشدد کے ۱۹؍ واقعات پیش آئے جن میں ۱۷؍واقعات مسلم اقلیت پر نا روا مظالم کے ہیں۔ہر واقعہ میں درندگی کی حدوں کو پارکر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی امن وقانون کے رکھوالوں میں کوئی ہلچل نہیں دیکھی گئی،سیکولر ملک میں آخر معصوم وبے قصورمسلمانوں کا قتل وخون کب تک کیاجاتا رہیگا ؟آئے دن مسلمان ان انسان نما درندوں کے ظلم کا نشانہ بنتے جارہے ہیں،کائنات کے بنا نے والے نے جانوروں کو پیداہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں ،گائے کو اگرمذہبی تقدس حاصل ہے تو اب تک یہ تقدس نگاہوں سے کیوں اوجھل رہا؟اورخود ہندودھرم کی مذہبی کتابوں میں کیوں اسکی قربانی کے واقعات کا تذکرہ موجودہے؟چلئے ٹھیک ہے اگرآپ اسکو مقدس مانتے ہوں تو مانا کریں ہم اسکا مذہبی کوئی تقدس مانے بغیرآپ کے فکری احترام میں گائے کا گوشت کھانے سے ا حتراز کرلیتے ہیں ،چنانچہ اس وقت پورے ملک میں مسلم اقلیت نے بعض ہندوبرادری کے افرادکے اس فکری احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے گائے کا گوشت کھا نا چھوڑدیاہے ،پھربھی بھگوادہشت گردوں نے انسانیت کا جامہ نکال پھینکاہے اوردرندگی کو بھی شرمسارکرکے بے قصورومعصوم اقلیت کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے جارہے ہیں،ہمارے ملک میں انصاف پسنداوراصول پسندشہریوں کی کمی نہیں یہ بات خوش آئند ہے کہ اکثریت کا ایک بہت بڑا طبقہ سیکرلرکردارکا حامل ہے،ملک میں جاری اس خون خرابہ پر سخت فکرو تشویش میں مبتلا ہے۔چنانچہ ۲۸؍جون کو ملک کے کئی مقامات پر اسکے خلاف مظاہر ہ کئے گئے جن میں ہزاروں کی تعدادمیں سیکرلرذہن رکھنے والے ہندوبھائیوں نے شرکت کی، مسلم اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اس وقت کئی ایک سیکولرتنظیمیں اٹھ کھڑی ہیں ،جمہوریت پسندافراداورتنظیمیں ان بہیمانہ اورانسانیت سوزواقعات پر اپنے احتجاج کے ذریعہ حکومت کو ملک کے سیکولرکردارکی حفاظت کا سبق یا د دلارہی ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھگوادہشت گردی کے پھیلاؤمیں ان بھگوادہشت گرد لیڈوں کا بڑارول ہے جو اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ نفرت کا پرچار کررہے ہیں ،ان پر بھی حکومت کوئی شکنجہ کسنا نہیں چاہتی ،آخرایسا کیوں ہے؟اس پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ملک کے وزیراعظم نریندرمودی نے ۲۹؍جون کو بیان جاری کیا کہ’’ گاؤ بھکتی کے نا م پر لوگوں کا قتل قابل قبول نہیں ہے،یہ بھی کہا کہ چلئے سب مل کر کام کریں ،مہاتماگاندھی کے خوابوں کا ہندوستان بنا تے ہیں ،ایک ایسا ہندوستان بنا تے ہیں جس پر ہمارے مجاہدین آزادی کو فخرہو،ملک میں کسی کوبھی قانو ن اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں ہے،یہ بھی کہا کہ ہمارے ہاں تشددکیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ‘‘یہ بیان بڑا قابل تعریف ہے اسکو سونے کے حروف میں کندہ کرکے ہندوستان میں جگہ جگہ ضرور آویزاں کیا جانا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ جب پورے ملک میں ایک مخصوص طبقہ کوپرتشددمظالم کا نشانہ بنا یا جارہا ہو مسلم اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہوتو کیا ایسے ٹھنڈے بیان پر اکتفا ء مظلوم اقلیت کے زخموںکے مداواکیلئے کوئی مرہم کا کام کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے اسکا جواب بھی نفی میں آئے گا ۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ظلم کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات کئے جاتے ،انسان نما درندوں اوربھیڑیو ں پر لگام کسی جاتی اوران کو عبرتناک سزا دی جاتی،اسکے بغیرنہ کبھی امن وآمان قائم ہواہے نہ ہوسکتاہے۔ اخلاقیات جہاں دم توڑرہی ہوں وہاں ظالموں کو کیفرکردارتک پہنچاکر ہی سماج کو ان زہریلے عنا صرسے پاک کیا جاسکتاہے اسکے بغیرامن وآمان کے قیام کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ ملک کو لا قانونیت سے بچانے کا یہی ایک واحد اورکارگرطریقہ ہے ،اسلام تو ظلم کو کسی قیمت پر پسند نہیں کرتاخواہ وہ کسی کے ساتھ روا رکھا جائے ، اوردیگر مذاہب کی تعلیمات میں بھی ظلم کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا ’’انصراخاک ظالما اومظلوما‘‘تم اپنے بھائی کی مددکرو خواہ وہ ظالم ہو کہ مظلوم ، ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ مظلوم کی مددکرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کی جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ظالم کی مدداسکو ظلم سے باز رکھنا ہے‘‘(بخاری ۶۹۵۲) حکومت اپنے ملک کی حفاظت اوررعایہ کے حقو ق کے تحفظ کیلئے ظالم کا ہاتھ تھامنے کی طاقت رکھتی ہے ،ملک کا سیکولر کرداراورانسانیت نوازی عزیزہے تو ضرورظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے موثراقدامات اختیارکرنا نا گزیر ہے۔حکومت اگربے بس ہویا وہ جانتے بوجھتے چشم پوشی کررہی ہو تو پھر’’ مرتا کیا نہ کرتا‘‘کے محاورہ پر عمل کرتے ہوئے حفاظت خود اختیاری کے اصول کو اپنا نا ضروری ہوجاتا ہے۔ہر شہر ی اورہر طبقہ جس پر نا روا مظالم ڈھائے جا رہے ہوں اسکو دستورا حق حاصل ہے کہ’’ اپنا بچاؤ آپ کرے‘‘ یہ حق بھی چھین لیا جائے تومظلوم کہاں جائیںاورظلم سے بچاؤ کی اورکونسی راہ ہو سکتی ہے ؟ ستم بالائے ستم ہندوستان کی بعض غیرمسلم تنظیمیں اپنی شاکھاؤں میں ہتھیارچلانے کی تربیت اورٹریننگ دیتی ہیں توان پر کوئی قدغن نہیں لگتی ،لیکن اگرکوئی مسلم تنظیم اس قانونی حق کا سہارالیتے ہوئے کوئی تربیت کا نظم کرے تو حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اس پر فوری امتناع عائد کرنے کے ساتھ ایسی تنظیموں کو دہشت گردی پھیلانے کے الزام میں دھر لیا جاتاہے،یہ کہاں کا انصاف ہے؟اورکیا عدل وانصاف سے آنکھیں موندکر لاقانونیت کے اس نراج زدہ ماحول کی حوصلہ آفزائی کرکے ملک کی سلامتی کا فرض نبھایا جاسکتاہے؟