طالبان کی بڑھتی اجارہ داری کی وجہہ سے لڑکیوں کے اسکولوں پر حملے

ناؤ دیھ‘ افغانستان۔ مجوزہ جنوری میں میڈٹرم امتحانات کے پیش نظر مغربی افغانستان کے صوبہ فرح کے ڈپٹی ایجوکیشن ڈائرکٹر صادق حلیمی نے طالبان لیڈرس کو انتباہ دیا۔مسٹر حلیمی نے بتایا کہ تمام گرلز اسکول کے مرد ٹیچرس کو ہٹادیاہے۔

ان کے مقام پر خاتون ٹیچرس کا تقرر کیاگیا۔ شدت پسندوں نے کہاکہ مرد ٹیچرس لڑکیوں کو تعلیم نہ دیں۔

مسٹر حلیمی نے کہاکہ ”حکومت نے جیسا بتایاگیا تھا ویسا ہی کیا”ہم انہیں کوئی موقع نہیں دینا چاہتی ہیں“ تاکہ زبردستی اسکولوں کو بند کردیاجائے۔

مگر فرح کے اسکولوں کو نہیں چھوڑا گیا۔ صوبہ کی درالحکومت فرح شہر کے محض اسکول سے باہر دو لڑکیوں کے اسکولوں کو موٹر سیکل سوار مصلح لوگوں نے آگ لگادی۔

دونوں اسکول بری طرح تباہ ہوگئے اور تدریسی میٹریل جو ہے وہ تباہ ہوگیا‘ جس کی وجہہ سے 1700لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔

قریب کی دیوار پر تحریر ملی ”اسلامی امارات قائم رہے“ طالبان کی تحریک کایہ نام ہے۔پولیس کے ایک ترجمان محیب اللہ محیب نے کہاکہ صوبہ کے دیگر گرلز اسکولوں پر پچھلے کچھ ماہ سے حملہ کیاہے۔

خوفزدہ ٹیچروں‘ طلبہ اور گھر والوں پر بڑھتے حملے سے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے خدشات اور خوف میں اضافہ ہوا ہے‘ کیونکہ دہشت گردوں اور امریکہ کے درمیان میں امن کی بات چیت ناکام ہوگئی ہے۔

جب سے 2001میں طالبان حکومت اقتدار سے بیدخل ہوئی ہے‘ لڑکیوں کی تعلیم میں اضافہ ہوا ہے اور خواتین گھر وں سے باہر نکلے ہیں۔

تعلیمی وزرات کے مطابق آج کی تاریخ میں 3.6ملین افغان لڑکیاں اسکولوں میں داخلہ لیاہے اور 10000عورتیں یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔

مگر ”سکیورٹی وجوہات“ کی بناء پر چارسو سے اسکول جہاں پر لڑکے او رلڑکیا ں تعلیم حاصل کرتی ہیں وہ پچھلے کچھ ماہ میں بند کردئے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ منسٹری نے کہاکہ مصلح جدوجہد‘ طالبات کی دھمکیاں او رحملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

فرح میں بمباری اس وقت پیش ائی جب طالبان لیڈرس کی بات چیت کے بعد جو امریکیوں سے جاری تھی نے کہاکہ وہ اسلامی قانون کے تحت خواتین کے حقوق کے لئے سنجیدہ ہیں‘ جس میں تعلیم کے حقوق بھی شامل ہیں۔