طالبان خودکش بم بردار کے ہاتھوں 9افرادہلاک

مرکزی کابل کے پولیس اڈے پر طالبان کا خودکش بم حملہ ،مہلوکین کی اکثریت شہری
کابل۔یکم فبروری ( سیاست ڈاٹ کام )  طالبان کے ایک خودکش بم بردار نے کابل کے وسط میں  پولیس اڈہ پر خودکش بم حملہ کیا جس سے کم از کم 9 افراد ہلاک ہوگئے جب کہ چند دن بعد ہی  بین الاقوامی مذاکرات کے تازہ مرحلہ کا آغاز ہونے والا ہے جس کا مقصد طالبان کے ساتھ بات چیت کا احیاء ہے ۔ کئی افراد خودکش بم حملے میں زخمی بھی ہوگئے ‘ کئی نعشیں اور راکھ کا ڈھیر بن جانے والی عمارتوں کا ملبہ پورے علاقہ میں بکھرا ہوا تھا ۔ حملہ اُس وقت ہوا جب کہ طالبان نے موسم سرما میں ایک جارحانہ حملہ کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ‘ حالانکہ امن مذاکرات کے احیاء کیلئے طالبان پر تازہ دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ وزارت داخلہ نے ابتدائی مرحلہ پر اطلاع دی تھی کہ حملہ خودکش کار بم حملہ تھا لیکن بعد میں کہا کہ حملہ آور پیدل تھا اور اُس نے عوام کی ایک قطار کے پاس جو پولیس کے اڈہ میں داخل ہونے کی منتظر تھی خود کو دھماکہ سے اڑا لیا ۔ نائب وزیر داخلہ محمد ایوب سلانگی نے اپنے ٹوئیٹر پر تحریر کیا کہ مبینہ طور پر 10افراد ہلاک ہوگئے اور 20 دیگر زخمی ہیں ۔  یہ خودکش حملہ کابل کے دیہ مزانگ چوک میں کیا گیا ۔ بیشتر مہلوکین شہری ہیں ۔ کابل پولیس کے ترجمان بصیر مجاہد نے جو پولیس کے ترجمان ہیں کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد9ہیں اور 12افراد بشمول ایک خاتون زخمی ہیں ۔ وزارت صحت کے بموجب بعض زخمیوں کے سینے پر اڑتی ہوئی کرچیوں سے زخم آئے ہیں اور ان کی حالت نازک ہے ۔موقع واردات پر ایمبولنس گاڑیاں فوری پہنچ گئیں اور عہدیداروں نے پورے علاقہ کا محاصرہ کرلیا ۔ طالبان نے حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ۔ شورش پسندوں کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے ٹوئیٹر پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ 40ملازمین پولیس ہلاک اور زخمی ہیں ۔عسکریت پسند معمول کے مطابق حکومت افغانستان پر حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ یہ قتل عام تیسرے مرحلہ کی چار ممالک کی ’’ لائحہ عمل ‘‘ بات چیت سے چند دن قبل کیا گیاہے ۔ حکومت افغانستان اور اسلامی گروپ کے درمیان راست بات چیت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ افغانستان کے مندوبین ‘پاکستان ‘ چین اور امریکہ اسلام آباد میں 6فبروری کو بات چیت کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں تاکہ طالبان شورش پسندوں کے ساتھ ان کی شورش پسندی کا آغاز ہوکر 15سال ہوگئے ہیں ‘ امن بات چیت کی جاسکے ۔ طالبان نے حکومت اور افغانستان میں غیر ملکیوں پر جاریہ موسم سرما میں حملوں میں شدت پیدا کردی ہے جب کہ لڑائی عام طور پر عروج پر آجاتی ہے ۔ صیانتی صورتحال ابتر ہوجاتی ہے اور اس کی اہمیت میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ حالیہ مہینوں میں طالبان نے مختصر سے وقت کیلئے شمالی شہر قندوس پر قبضہ کرلیا تھا ۔ یہ پہلا شہر تھا جو شورش پسندوں کے زیرقبضہ آگیا تھا ۔ قبل ازیںانہوں نے جنوبی صوبہ ہلمند کے افیون کی کاشت سے علاقوں پر قبضہ کیا تھا ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شورش پسندی میں شدت پیدا ہونے سے ظاہر ہوتاہے کہ عسکریت پسند زیادہ سے زیادہ علاقہ پر قبضہ کرلیناچاہتے ہیں تاکہ بات چیت کے دوران انہیں زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل ہوسکیں ۔ پاکستان طالبان کا تاریخی تائید کرنے والا ملک ہے جہاں پہلے مرحلہ کی بات چیت طالبان کے ساتھ جولائی میں ہوچکی ہے لیکن یہ بات چیت اُس وقت تعطل کا شکار ہوگئی جب کہ طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کی موت کی تاخیر سے اطلاع کے بعد اس گروپ میںخانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ چار ممالک کی پہلے اور دوسرے مرحلے کی بات چیت گذشتہ ماہ علی الترتیب اسلام آباد اور کابل میں منعقد کی جاچکی ہے ۔