ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں منعقدہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے بہتر مظاہرہ کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے یہ دعویٰ کیا کہ عوام نے اُن کی ’’سیاسی تبدیلی‘‘ کے نعرے پر یقین کرکے ووٹ دیا ہے۔ شمال، جنوب، مشرقی اور مغربی خطوں کے علاوہ ملک کے وسطی حصوں میں بی جے پی کی کامیابی کو اپنی حکومت کی 20 ماہی کارکردگی کا تحفہ قرار دینے والے وزیراعظم اس کامیابی کے پس منظر میں اپنی حکومت کی ’’فاش غلطیوں‘‘ اور ’’انتخابی وعدوں‘‘ پر عمل آوری میں ناکامی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ’’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘‘ نعرہ دیا تھا لیکن اس نعرہ سے اب تک صرف بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کا ہی ’’وِکاس‘‘ (ترقی) ہوتا آرہا ہے۔ عام آدمی، وزیراعظم مودی کے اس ’’وکاس نعرہ‘‘ کو عملی طور پر دیکھنے کیلئے بے چین ہے۔ بلاشبہ بی جے پی نے عوام کی رائے اپنی جانب کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں اس طرح کامیاب مظاہرہ کرتی تو نتائج کا گراف ملکی طور پر اس کے حق میں ہوتا۔ اُترپردیش کے فرقہ وارانہ طور پر حساس حلقہ ’’مظفر نگر‘‘ میں بی جے پی کا قبضہ ہوا ہے جبکہ یوپی کے ضمنی انتخابات میں حکمراں سماج وادی پارٹی (ایس پی) کو شدید دھکہ لگا۔ اس کو 3 کے منجملہ 2 نشستوں کا نقصان ہوا۔ اسی طرح کانگریس کو کرناٹک میں 2 نشستوں پر شکست ہوئی، اسے ایک ہی پر کامیابی ملی۔
تلنگانہ کے نارائن کھیڑ حلقہ اسمبلی میں بھی کانگریس کی اس نشست کو حکمراں تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) نے چھین لیا ہے۔ عوام کی رائے میں اتنی بڑی تبدیلی یہ ظاہر کرتی ہے کہ کانگریس کو بتدریج مسترد کردیا جارہا ہے۔ ملک کی 8 ریاستوں میں 12 حلقوں پر ضمنی انتخابات کروائے گئے تھے جن کے نتائج آنے کے بعد کانگریس کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کرنا چاہئے۔ اس پارٹی نے لوک سبھا انتخابات 2014ء میں ناکامی کے بعد کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ چار ریاستوں مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، پنجاب اور تلنگانہ میں حکمراں پارٹیوں بی جے پی، شیوسینا، اکالی دل اور ٹی آر ایس کو کامیابی ملی ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ عوام نے حکمران پارٹیوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں یوپی کے نتائج حکمراں پارٹی سماج وادی پارٹی کی کارکردگی پر عوام کا ’’ریفرنڈم‘‘ ہوسکتے ہیں۔ اس نتیجہ نے اکھیلیش یادو زیرقیادت ایس پی حکومت کو شدید مایوس کردیا ہے جبکہ اکھیلیش یادو اپنی حکومت کو ہمیشہ ’’مقبول حکومت‘‘ قرار دیتے رہے۔ گزشتہ ہفتہ ہی چیف منسٹر یوپی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ عوام کی بھرپور حمایت سے دوبارہ اقتدار حاصل کریں گے لیکن ان کی حکومت میں فرقہ پرستی کو بڑھاوا ملنے سے ہی مظفر نگر جیسے حساس حلقہ میں بی جے پی نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس حلقہ میں 2013ء میں شدید فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔
اب یہاں بی جے پی کی کامیابی سے فرقہ وارانہ طور پر حساس ضلع میں ’’زعفرانی طاقت‘‘ کا اثر بڑھ جائے گا، البتہ دیوبند میں کانگریس کے معاویہ علی نے سماج وادی پارٹی کی مینا رانا دیوی کو شکست دے دی اور آر ایس ایس کے سابق پرچارک اور بی جے پی کے امیدوار رام پال سنگھ کو تیسرا مقام حاصل ہوا۔ مظفر نگر اور دیوبند میں حکمراں پارٹی سماج وادی پارٹی کی ناکامی عوامی ناراضگی کا نتیجہ ہے جبکہ اس نے اپنے منتخب ارکان اسمبلی کے انتقال کے بعد ان کے ہی رشتہ داروں کو امیدوار بنایا تھا۔ عوام یا رائے دہندوں نے ضمنی انتخابات میں کہیں حکمراں پارٹی کا ساتھ دیا ہے تو کہیں حکمراں پارٹی کو سبق سکھایا ہے۔ ان پارٹیوں نے عوام سے کئے گئے دعوؤں کو پورا نہیں کیا۔ یہ نتائج مودی حکومت کے لئے بھی غور طلب ہیں کیوں کہ فی الحال مرکزی حکومت کی کارکردگی اور وعدوں کی تکمیل کا انتظار ہورہا ہے۔ اگر یہ حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں یکسر ناکام ہوتی ہے تو بی جے پی کا بھی آئندہ وہی حشر ہوگا جو اس وقت بعض ریاستوں میں حکمراں پارٹیوں کا ہوا ہے۔ کسی بھی حکومت میں معاشی ترقی کا حقیقی معیار یہی ہے کہ اس کے ثمرات عام آدمی تک پہونچیں لیکن غریب اور پسماندہ طبقات ان فوائد سے ابھی پوری طرح مستفید نہیں ہوسکے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش میں حکمراں ایس پی کی ناکامی اور بی جے پی کی کامیابی آنے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج کی ’’دُھندلی تصویر‘‘ پیش کررہی ہے۔ عوام کو مختلف مسائل اور فرقہ وارانہ واقعات میں اُلجھا کر رکھتے ہوئے کامیابی ہونے کی ترکیب پر بی جے پی گامزن نظر آرہی ہے۔