ضلع مجسٹریٹ بریلی کی حق گوئی

سیر چمن کو آپ نہ جائیں خزاں کے ساتھ
صحنِ چمن میں ہوتا ہے ماتم کبھی کبھی

ضلع مجسٹریٹ بریلی کی حق گوئی
اترپردیش کے ضلع کاس گنج میں فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ اور اس کے پیچھے کارفرما سازش کا اصل مقصد اگر ہندو مسلم فساد برپا کر کے ملک میں عام انتخابات سے قبل ایک فرقہ وارانہ کشیدگی کی فضا پیدا کردی جائے ہے تو یہ ایک بدبختانہ کوشش ہے۔ فسادیوں کے مقاصد پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ بریلی نے فیس بک پر ایک تحریر پوسٹ کیا ہے اور کہا کہ لوگوں نے عادت بنالی ہے کہ ان علاقوں میں جلوس نکالا جائے جہاں مسلمان رہتے ہیں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے جائیں ۔ انہوں نے یہ درست طریقہ سے سوال اٹھایا ہے کہ ’ عجب رواج بن گیا ہے مسلم محلوں میں جلوس لے جاؤ اور پاکستان مردہ آباد کے نعرے لگاؤ ۔ کیوں بھائی وہ پاکستانی ہیں کیا ؟ ‘ ضلع مجسٹریٹ آر وی سنگھ نے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ مسلم محلوں کو خاص نشانہ بناکر ہی فساد برپا کیا جاتا ہے ۔ آر وی سنگھ ایک پابند ڈسپلن سابق فوجی ہیں انہوں نے ملک میں پائے جانے والے فرقہ پرست ٹولوں کی سازشوں کی جانب نشاندہی کی ہے تو اس کا نوٹ لینا حکومت کا کام ہے ۔ اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو سے 340 کیلو میٹر دور اس چھوٹے سے ٹاون میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکایا گیا تھا ۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر مسلم اکثریت والے علاقہ بڈونگر میں ’ ترنگا یاترا ‘ نکالنے والے گروپ کی نعرہ بازی کے بعد فساد برپا ہوا تھا ۔ اس تشدد میں ایک 23 سالہ نوجوان ہلاک ہوا ۔ لیکن فرقہ پرستوں نے اس نوجوان کی موت کے لیے ایک مسلم خاندان کو ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے مکان کو لوٹ لیا اور توڑ پھوڑ کر کے نقصان پہونچایا ۔ کاس گنج کے معروف تاجر برکت اللہ برکتی مرحوم کے مکان کو نقصان پہونچانے کا مقصد مبینہ طور پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ ہندو نوجوان کی موت اس گھر سے کی گئی فائرنگ کے باعث ہوئی تھی ۔ فسادیوں نے برکت اللہ کے فرزندوں وسیم ، نسیم اور سلیم کو نشانہ بنایا ۔ اس واقعہ کے بعد سے یہ مسلم خاندان لاپتہ بتایا گیا ہے ۔ اسی علاقہ میں ویر عبدالحمید چوک پر ہر سال یوم جمہوریہ تقریب منائی جاتی ہے ۔ پرچم کشائی کرنے مقامی مسلم افراد جمع ہوتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی جب پرچم کشائی انجام دی جارہی تھی تقریبا 100 موٹر سیکل سوار افراد ترنگا اور زعفرانی پرچموں کو تھامے اس مقام پر پہونچے اور وہ یہاں سے گذرنا چاہتے تھے جہاں پرچم کشائی کے لیے اسٹیج تیار کیا گیا تھا ۔ مقامی افراد نے دوسری راہ سے جانے کی خواہش کی تو موٹر سیکل رانوں نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے مقامی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا نعرہ لگایا ۔ گذشتہ سال 15 اگست کو بھی اسی طرح کی کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ مسلم علاقوں سے 10 تا 15 موٹر سیکل سوار گذرتے ہوئے نعرے لگاتے رہتے ہیں ۔ موٹر سیکل ریالیاں نکالنے کا چلن عام ہوتا گیا ہے ۔ پہلے یہ ریالیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی تھیں لیکن جب سے اترپردیش اور مرکز میں زعفرانی طاقتوں نے اقتدار سنبھالا ہے ۔ موٹر سیکل ریالیوں کی تعداد اور اشتعال انگیزی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ مقامی افراد میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر کے فرقہ پرستوں نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کی ۔ پولیس اس مسئلہ پر خاموش ہے کہ آیا پولیس نے ان موٹر سیکل ریالیوں کو نکالنے کی اجازت دی تھی اور آیا موٹر سیکل ریالی نکالنے کے لیے پولیس سے اجازت لینے کے لیے درخواست دی گئی تھی یا نہیں ۔ پولیس کی مجرمانہ غفلت یا خاموشی کی وجہ سے ہی ایک پرامن علاقہ فساد کی لپیٹ میں آگیا جب کہ کاس گنج کا ماضی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مشہور تھا ۔ یہاں ہندو مسلم متحد ہیں ان میں کسی قسم کا بھید بھاؤ پایا نہیں جاتا ۔ مقامی ہندو اور مسلم افراد نے یہ واضح کہدیا ہے کہ گڑبڑ کرنے والے باہر سے آئے تھے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس فساد کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف کارروائی کرے ۔ اس کی خاموشی اور عدم کارروائی سے ایک ضلع کا فساد ملک کے دیگر علاقوں کے فرقہ پرستوں کو حوصلے بخشے گا امن و امان کی فضا تباہ ہوجائے گی ۔ 2019 کے عام انتخابات سے قبل اگر ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر ووٹ بینک مضبوط بنانے کی سازش کی جارہی ہے تو اس کے لیے قانون اور لا اینڈ آرڈر کی نگرانی کرنے والوں کو ہی سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ ضلع مجسٹریٹ بریلی مسٹر آر وی سنگھ نے کہا کہ یہ ایک چھوٹا واقعہ ہے لیکن اس کے اثرات بھیانک ہوسکتے ہیں ۔ آر وی سنگھ نے 2017 میں بریلی کے ضلع مجسٹریٹ کی حیثیت سے جائزہ لیا تھا وہ ہندوستانی فوج کمشینڈ آفیسر رہ چکے ہیں ۔ حکومت اور لا اینڈ آرڈر کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے والوں کے خلاف سخت نوٹ لیں ۔اب جبکہ چیف منسٹر یوپی آدتیہ ناتھ یوگی نے خاطیوں کو ہرگز نہ بخشنے کاانتباہ دیا ہے تو اس پر عمل آ وری کے ذریعہ امن بحال کیا جانا چاہئے ۔