صرف داعش ہی نہیں دیگر دہشت گردوں کو بھی نشانہ بنایا جائے : فرانس

صدر فرانس اولاندے کے قبل ازیں دئیے گئے بیان میں ترمیم ،جہاں صرف داعش کو نشانہ بنانے کی بات کہی گئی تھی
پیرس ۔ 5 ۔ اکٹوبر : ( سیاست ڈاٹ کام) : وزیر خارجہ فرانس لارنیٹ فیبئس نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ شام میں کئے جانے والے فضائی حملوں کا نشانہ دراصل دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے علاوہ ایسے گروپس بھی ہونے چاہئے جو دہشت گرد کے زمرے میں آتے ہیں ۔ لارنیٹ فیبئس نے دراصل صدر فرانس فرانکوئس اولاندے کے ہی ایک بیان کو دہرایا تاہم اس بیان میں اولاندے نے صرف اور صرف داعش کو ہی نشانہ بنانے کی بات کہی تھی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر دہشت گرد گروپس جیسے النصر فرنٹ کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے ۔ یوروپ I ریڈیو سے بات کرتے ہوئے فیبئس نے کہا کہ واقعتاً یہ ایک بروقت فیصلہ ہے کیوں کہ داعش کے علاوہ دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی سرگرم ہیں اور ان کی سرکوبی کرنا بھی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ گذشتہ چہارشنبہ سے روس نے کم و بیش 70 فضائی حملے کئے ہیں تاہم روس کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ صرف مغربی تائید والے مغربی اپوزیشن اور آئی ایس جنگجوؤں کو بیک وقت نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ بشار الاسد کا موقف مستحکم رہے ۔ صدر امریکہ اوباما نے بھی روس کی شام میں اچانک مداخلت کی شدید مخالفت کی ہے ۔ جب کہ وزیر اعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون نے بھی صدر روس ولادیمیر پوٹن سے شام میں رخ بدلنے کی درخواست کی ہے اور یہ خواہش کی ہے کہ وہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی تائید کریں تاکہ ان کے ( اسد ) مقام پر کسی اہل قائد کا انتخاب عمل میں آئے ۔ فیبئس نے اس موقع پر اندیشہ ظاہر کیا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کہیں ایک بڑی مذہبی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے ۔ اپنی بات کو سمجھانے کے لیے انہوں نے کہا کہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ کسی ملک کی معمولی خانہ جنگی شدت اختیار کرتے ہوئے ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے تاہم جب اس جنگ میں عالمی طاقتیں جیسے روس ، ایران اور امریکہ بھی شامل ہوجائیں تو وہ ایک بڑا خطرہ بن جاتی ہے اور بڑی مذہبی جنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ مذہبی جنگ اس طرح کی ایک طرف شیعہ مسلکی افراد ہیں جن کے حامیوں کی کثیر تعداد ہے اور دوسری طرف سنی مسلکی افراد ہیں اور ان کے حامیوں کی تعداد بھی قابل لحاظ ہے اور جب دونوں دوبدو ہوجائیں تو صورت حال انتہائی خطرناک اور دھماکو ہوجاتی ہے ۔ سعودی عرب اور قطر بشارالاسد کے شدید مخالفین ہیں اور یہ لوگ امریکہ کی قیادت والی اتحادی فوج کا بھی حصہ ہیں جو دولت اسلامیہ جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملے کررہے ہیں جب کہ فرانس گذشتہ سال سے عراق میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے نبرد آزما ہے تاہم شام میں اس نے اپنے حملوں کا سلسلہ صرف آٹھ روز قبل ہی شروع کیا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اس وقت پورا عالم اسلامیہ انتشار کا شکار ہے اور مسلکی جھڑپوں نے عراق کی معیشت کی کمر توڑ دی ہے ۔ صدام حسین کو پھانسی دئیے جانے کے بعد عراق کی حالت آج تک نہیں سنبھل سکی اور عوام انتہائی پریشانی میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ لیبیا میں معمر قذافی کے بعد حالات کو خوشگوار ہرگز نہیں کہا جاسکتا ۔ یہی حال مصر کا ہے جہاں حسنی مبارک کے بعد مرسی کو بھی ہٹادیا گیا اور ہر گزرنے والا دن فتنہ سامانیوں سے پُر ہے ۔ بشارالاسد اگر اقتدار سے دستبردار ہو بھی گئے تو اس بات کی کیا طمانیت ہے کہ شام میں ایک بار پھر امن وامان اور خوشحالی کا بول بالا ہوگا ؟ ۔