بریلی (یوپی) ۔ 24 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) بارہویں جماعت کے طالب علم جس کو مبینہ طور پر یو پی کے ریاستی وزیر اعظم خان کے خلاف فیس بک پر ’’قابل اعتراض تبصرے‘‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ آج سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی دفعہ 66A حذف کردینے کے بعد جوش اور یگانگت کے ماحول میں صدمہ اور برہمی کے ماحول کی جگہ لے لی۔ سائبر قانون کی دفعہ کے تحت حکومت کو اختیار تھا کہ ویب سائیٹس پر جارحانہ مواد شائع کرنے کے الزام میں کسی بھی شخص کو گرفتار کرلے۔ متاثرہ لڑکے کے مکان پر مقامی افراد سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جشن منا رہے تھے جس میں قانون اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی دفعہ 66A کو غیردستوری قرار دیا گیا ہے۔ 18 سالہ بارہویں جماعت کا طالب علم لڑکا 18 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگلے ہی دن ایک مقامی عدالت نے اسے ضمانت پر رہا کردیا تھا۔ اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یو پی کے ذرائع ابلاغ کے انچارج اعظم خان کے خلاف قابل اعتراض مواد شائع کیا تھا جس کی وجہ سے اسے گرفتار کرلیا گیا۔ سماج وادی پارٹی قائد نے شخصی طور پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ لڑکے نے ان کے خلاف فیس بک پر ’’قابل اعتراض مواد‘‘ شائع کیا اور اس طرح قانون کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوگیا۔