صحیح راہ پر چلنے کا سبق …!

فیصل کی عمر چار سال تھی کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ فیصل کی امی نے ہمت سے کام لے کر فیصل کی پرورش کی۔ وہ محلے والوں کے کپڑے سی کر گذارہ کرتیں۔ جب فیصل پانچ سال کا ہوا تو انہوں نے اسے اسکول میں داخل کروادیا۔ فیصل کے والد نے گھر کے آنگن میں لال گلاب کا پودا لگایا تھا۔ فیصل کی والدہ اس کا پورا خیال رکھتی تھیں کیونکہ فیصل کے والد بھی اس پودے سے بڑی محبت کرتے تھے۔
فیصل بھی اس پودے کا خاص خیال رکھتا، وہ ایک نیک لڑکا تھا، وہ اپنی امی کے کام میں ہاتھ بٹاتا۔  پرائمری اسکول اچھے نمبروں سے کامیاب کرنے کے بعد جب وہ ہائی اسکول میں داخل ہوا تو کچھ ہی دنوں میں اس کا رنگ ڈھنگ بدلنے لگا۔ اب وہ اپنی امی کا کہنا بھی نہیں مانتا تھا۔ اس کی امی بہت پریشان تھی۔ وہ اسے بہت سمجھاتی پر وہ سنتا نہیں تھا۔ وہ ہاشم اور عاصم جیسے بُرے لڑکوں کی صحبت میں رہنے لگا۔ ایک دن صبح فیصل کی امی نے اسے پودے میں پانی ڈالنے سے روک دیا اور کہا کہ اب گلاب کو پانی کی ضرورت نہیں رہی۔ فیصل کو بڑا تعجب ہوا لیکن وہ خاموش رہا۔ اس دن فیصل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ گلاب کی شاخیں امربیل کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہیں۔ فیصل اسے ہٹانے لگا۔ اس کی امی نے پھر اسے منع کیا۔ اب کی بار امی نے اس سے کہا کہ امر بیل کی یہ خاصیت ہے کہ وہ جس درخت پر چڑھے گی، اس کو ختم کردے گی۔ اس کی امی نے غمگین لہجے میں کہا: کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم ایک امربیل کو پودے کی تباہی کی وجہ سے ہٹا رہے ہو، کبھی اپنے متعلق بھی سوچا ہے۔ فیصل نہایت شرمندہ ہوا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے دلدل میں ڈوبتے ڈوبتے ایک شاخ نے اسے سہارا دیا  اور لال گلاب نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کرکے اسے صحیح راستے پر چلنے کا سبق دیا۔