صحابۂ عظام رـضی اﷲ عنہم کو ہرگز بُرا مت کہو

سید زبیر ہاشمی، مدرس جامعہ نظامیہ

مالک ذوالجلال اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے بعد کائنات میں سب سے زیادہ عظمت والی ذات، ذات مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انبیاء و رُسل ِعظام علیہم السلام کا مقام و مرتبہ ہے، پھر اس کے بعد صحابۂ عظام رضی اﷲ عنہم اجمعین امت محمدیہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں زیادہ فضیلت والے ہیں۔ جیسا کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ پارۂ ایک کے آخری صفحہ میں ارشاد فرماتے ہیں ’’پس تم اُن {صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین} کے مثل ایمان لاؤ تو ہدایت یافتہ بن جاؤگے‘‘ {سورۃ البقرہ آیت نمبر۱۳۷} اس آیت پاک سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی ہے کہ اگر کوئی ایمان میں تقویت اور مضبوطی پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ صحابہ کی طرح ایمان لالے، یقینا وہ کامیابی کی راہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم رہیگا۔ اور یہی وہ صحابہ کرام ہیں جن کے متعلق آقائے دوجہاں صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’أَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِأَیِّھِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ‘‘ {ألحدیث} ’’ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں پس تم میں سے جو کوئی ان کی اقتداء کریگا، ہدایت پائیگا‘‘ اور ان صحابۂ عظام رضی اﷲ عنہم کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار {۰۰۰،۱۲۴} ہے۔

اب صحابی کس کو کہتے ہیں تو اس کی تعریف قرآن مجید اور احادیث شریفہ کی روشنی میں مضبوط و مستحکم انداز میں تحریر کی جانے والی کتاب بنام ’’نصاب اہل خدمات شرعیہ‘‘ کے حصۂ عقائدصفحہ نمبر ۲۳ میں موجود ہے ’’صحابی وہ ہے جو بحالت ایمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف ہوئے ہوں اور ان کی موت بھی حالت ایمان میں ہوئی ہو‘‘۔ صحابہ کے متعلق ہمارا عقیدہ کس طرح کا ہونا چاہئے ؟ اورکیسے ان سے محبت، وارفتگی، عقیدت، احترام اور اظہار عشق کرنا چاہئے ؟ اس کے بارے میں احادیث شریفہ بے حساب و اَن گنت ہیں جن میں سے صرف سات {۷} حدیثیں لکھی جارہی ہیں ملاحظہ ہو:
۱ } ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : میرے صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین کو بُرا مت کہو پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ {بخاری شریف، ترمذی شریف، أبوداؤد شریف}

۲ } ’’حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا مت کہو، میرے صحابہ کو بُرا مت کہو پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ {مسلم شریف، ابن ماجہ شریف}
۳ } ’’حضرت عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور میرے بعد ان کو اپنی گفتگو کا نشانہ مت بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اﷲ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے اﷲ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت ہوئی‘‘۔ {ترمذی شریف}
۴ } ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو بُرا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو کہ تم پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے‘‘۔ {ترمذی شریف}
۵ } ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے سنا پس آپ علیہ السلام نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو پھر ان کی جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کی جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں پھر جھوٹ ظاہر ہوگا یہاں تک کہ آدمی قسم طلب کئے جانے سے پہلے قسم اٹھالے گا اور شہادت طلب کئے جانے سے پہلے شہادت دیدے گا پس جو جنت کی وسعت کا طالب ہے تو اس پر لازم ہے جماعت کو لازم پکڑے اور جدائی اور تفرقہ سے بچو بے شک شیطان ایک کے ساتھ ہے اور وہ دو سے بہت دور ہے اور کوئی آدمی ہر گز کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ ملے کیونکہ ان میں شیطان ہے اور جس کو اس کی نیکی خوش اور برائی پریشان کرے تو وہی مومن ہے‘‘۔ {نسائی شریف}

۶ } ’’حضرت عویم بن ساعدہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے {اپنا چہیتا رسول} منتخب کیا اور میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب کیا پس اُس نے میرے لئے ان میں سے وزراء بنائے اور قریبی رشتہ دار اور انصار پس جس نے انہیں گالی دی تو اُس پر اﷲ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ان کے کسی ہیر پھیر یا دلیل کو قبول نہیں کریگا‘‘۔ {حاکم، طبرانی}
۷ } ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کی برائیاں بیان نہ کرو کہ ان کیلئے تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے اور میرے صحابہ کے محاسن اور اچھائیاں یاد کرو یہاں تک کہ تمہارے دل ان کیلئے آپس میں اکٹھے ہوجائیں‘‘۔ {دیلمی} {از: ألنجاۃ فی مناقب الصحابۃ}
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@yahoo.com