دین کے اُصولوں سے بے پرواہ نوجوانوں سے ترقی کی منزلیں طے کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی
حیدرآباد۔27جنوری (سیاست نیوز) رات کے وقت کا جاگنا اور صبح کے وقت کا سونا امت کے نوجوانوں کا سب سے بڑا المیہ بنتا جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود بھی شہر حیدرآباد کے ماحول میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے اور راتوں کو جاگنے کا سلسلہ اب بھی جوں کا توں برقرار ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا دیکھا جا رہاہے۔ دین اسلام میں رات کے وقت تنہاء سفر اور رات کے وقت جاگنے کی سختی سے ممانعت کے باوجود نوجوانو ںمیں شعور اجاگر کرنے کیلئے کوئی سخت گیر اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں ۔ احادیث مبارکہ میں رات کے وقت عشاء کے فوری بعد سونے اور صبح فجر سے قبل اٹھنے کی متعدد مرتبہ تاکید موجود ہے الیکن ان پر عمل کے معاملہ میں امت کے نوجوانوں میں کوئی فکر نظر نہیں آتی۔ریاست میں تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ صدرنشین جناب الحاج محمد سلیم نے تقاریب کو رات دیر گئے تک چلنے سے روکنے کے لئے پہل کی شروعات ہی کی تھی کہ ان کے خلاف مہم شروع کردی گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ حکومت کو مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے پرانے شہر میں چلائے گئے چبوترہ مشن کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نوجوان رات دیر گئے تک تقاریب کے نام پر اپنے گھروں سے غائب رہتے ہیں ۔ والدین کا بھی یہی کہنا تھا کہ نوجوان شادی بیاہ کی تقاریب کا بہانہ کرتے ہوئے گھروں سے غائب رہا کرتے ہیں اور رات دیر گئے تک جاری رہنے والی تقاریب کے سبب ان کے اس بہانہ پر یقین کیا جانے لگا ہے ۔ مسلم خاندانو ںمیں بچوں کو جب بنیادی دینی تعلیم کی فراہمی عمل میں لائی جاتی ہے اسی وقت ایک حدیث کا بھی درس دیا جاتاہے جو چہل حدیث میں شامل حدیث ہے۔ ’’صبح کے وقت کا سونا رزق کو روکتا ہے‘‘ رزق صرف کھانے پینے کی اشیاء کو نہیں کہا گیا ہے بلکہ مفسرین نے رزق کے معنی بہت وسیع رکھے ہیں اور کہا کہ ہر قسم کی ترقی اور نفع بخش چیز کا شمار رزق میں کیا جاتاہے لیکن شہر حیدرآباد کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہورہاہے کہ حیدرآباد کے مسلم نوجوان رزق کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمیعۃ علماء ہند آندھرا پردیش و تلنگانہ نے بتایا کہ رات کے وقت جاگنے والے نوجوانوں سے ترقی اور صحت کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ جو نوجوان دین کے اصولوں سے بے پرواہ زندگی گذارتے ہیں وہ ترقی کی منزلیں طئے نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ غیر مسلم علاقوں میں صبح 4:30بجے لوگ ورزش اور چہل قدمی کیلئے اپنے گھروں سے نکلتے نظر آتے ہیں اور مسلم علاقوں میں اس وقت نوجوان گھروں کو واپس ہوتے نظر آتے ہیں جبکہ دین اسلام میں رات کو جاگنے کی سخت ممانعت آئی ہے اور کہا گیا ہے کہ شب بیداری صرف عبادت کیلئے کی جاسکتی ہے لیکن نوجوان نسل اپنی راتوں کو تباہ کرتے ہوئے دین کے احکام کی خلاف ورزی کے ذریعہ اپنے مقصد حیات سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کہا کہ رات دیر گئے تک تقاریب کے انعقاد اور ہوٹل و ریستوراں کے کاروبار کو کھلا رکھنے کے سبب بھی نوجوانوں کو وقت گذاری کے مراکز میسر آرہے ہیں اگر ہوٹلوں اور ریستوراں کے مراکز کو معینہ وقت پر بند کرنے کے اقدامات کئے جائیں اور میزبان اپنے طور پر تقاریب کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کریں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اسی لئے ہر گوشہ سے اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ نوجوانوں کو رات کے اوقات میں سامان تفریح فراہم کرنے والے اداروں کو بند کروایا جائے اورنوجوانوں میں شعور اجاگر کرتے ہوئے انہیں دینی معلومات بہم پہنچائی جائیں اور انہیں اس بات سے واقف کروایا جائے کہ رات کو جاگنے کا ان کا یہ عمل ان کی صحت کیلئے کس حد تک نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے کیا منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔