شہری ہندوستان عام آدمی پارٹی حکومت کا خواہاں:پول سروے

٭ دہلی ،ممبئی،کولکاتا،چینائی،بنگلور، حیدرآباد، پونے اور احمدآباد کے 44 فیصد ووٹرس کجریوال کی پارٹی کے حامی
٭ وزارت عظمی کیلئے کجریوال، راہول پر مودی کو فوقیت ٭دیہی ہندوستان میں عام آدمی پارٹی کی راہ آسان نہیں
نئی دہلی 9 جنوری (سیاست ڈاٹ کام ) لگ بھگ چھ ماہ قبل جب اروند کجریوال نے اعلان کیا کہ وہ دہلی کے اسمبلی چناؤ وہیں نشست سے لڑیں گے جہاں سے شیلا ڈکشٹ اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرے گی،تب ملک بھر میں عمومی طور پر برانگیختہ ماحول پیدا ہوگیا تھا ۔ متفقہ رائے یہی تھی کہ یہ شعبدہ بازی ہوگی جو عام آدمی پارٹی کو مہنگی پڑے گی۔ اب ایک کامیاب انتخابی آغاز کے بعد عام آدمی پارٹی نے دہلی میں حکومت تشکیل دی ہے اور اسے ایسی پارٹی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جسے زیادہ تر میٹرو شہروں کے رائے دہندے آنے والے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ دینا پسند کریں گے۔

اور اس سال کے پہلے لوک سبھا پول سروے میں اس پارٹی کی قسمت بدلتی نظر آرہی ہے جیسا کہ اشارہ ملتا ہے کہ ملک کے میٹرو شہروں میں تقریبا ً نصف رائے دہندے چاہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی ہی حکومت تشکیل دے۔ مار کیٹ ریسرچ ایجنسی IPSOS کی جانب سے ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کیلئے دہلی ، ممبئی، کولکاتا، چینائی، بنگلور، حیدرآباد، پونے اور احمدآباد میں منعقدہ انتخابی سروے میں حصہ لینے والے 44 فیصد افراد نے کہا ہے کہ وہ مرکز میں عام آدمی پارٹی حکومت دیکھنا چاہیں گے۔ ٹائمز نے بیان کیا ہے: ’’سروے میںپایا گیا ہے کہ ایک تہائی شرکاء کی رائے میں عام آدمی پارٹی 26 اور 50 نشستوں کے درمیان جیت درج کرائے گی، دیگر 26 فیصد کا تاثر ہے کہ یہ پارٹی 51-100 نشستیں جیت سکتی ہے، 11 فیصد نے کہا کہ وہ زائد از 100 سیٹیں حاصل کرے گی اور 5 فیصد نے تو اس پارٹی کیلئے اکثریت کی پیش قیاسی کردی۔ تمام آراء کو یکجا کیا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ تین چوتھائی شرکائے سروے کا ماننا ہے کہ عام آدمی پارٹی 2014 میں کسی اور پارٹی کے مقابل زیادہ نشستیں جیتے گی،

ماسوائے جو کچھ کانگریس اور بی جے پی نے 2009ء میں جیتے تھے۔‘‘ تاہم یہی ووٹرس کجریوال کی اس ملک کو چلانے کے تعلق سے زیادہ پُر امید نہیں ہیں اور اس لئے وزیر اعظم ہند کے طور پر بی جے پی کے نریندر مودی کے حق میںرائے دی ہے۔ 58فیصد ووٹروں کی
خواہش ہے کہ مودی کو وزیر اعظم بنایا جائے ،جبکہ کجریوال کو 25 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔ اس معاملے میں راہول گاندھی بہت پیچھے رہ گئے جیسا کہ انہیں بمشکل 40 فیصد ووٹ ملے۔ تاہم ٹائمز نے اداریہ میں اعتراف کیا ہے کہ اس سروے میں بعض خامیاں ہوسکتی ہیں ۔ اول یہ کہ شرکاء کی تعداد جو تقریبا ً 2000 رہی ،چھوٹی ہے اور 18-45سال کی عمر والے زمرے پر توجہ مرکوز رکھی گئی جو زیادہ تر عام آدمی پارٹی سے کافی متاثر ہے ۔ تاہم یہ سروے ایک چیز کو غلط ثابت کرتا ہے ۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ عام آدمی پارٹی اپنی لوک سبھا انتخابی مہم میں بحسن خوبی آگے بڑھ رہی ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ میٹرو شہروں میں ووٹر کا رجحان کم و بیش ویسا ہی ہے جیسے دہلی میں دیکھا گیا۔

چنانچہ عام آدمی پارٹی دیگر شہروں میں بھی کامیاب شروعات کرسکتی ہے۔ تاہم
لوک سبھا کا الیکشن دیہی ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی تائید و حمایت حاصل کرکے ہی جیتا جاسکتا ہے جن کے ساتھ عام آدمی پارٹی قائدین فوری طور پر تال میل قائم نہیں کرسکتے ہیں۔ اس پارٹی کے ’عام آدمی‘ کے حقائق بالکلیہ طور پر اس عام آدمی سے مختلف ہیں جو دیہی ہندوستان میں رہتا ہے۔ اُن کیلئے بجلی بل کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ بجلی کی عدم دستیابی کا انہیں سامنا رہتا ہے۔’اکنامک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق ’’ریڈیو پر اشتہار عوام کے درمیان بعض مہمات اور سوشیل میڈیا پر جارحانہ سرگرمی ہی رہی جس نے عام آدمی پارٹی کو دہلی اسمبلی انتخابات 2013 کے دوران خود کو پیش کرنے میں بڑی مدد کی اور پارٹی آنے والے لوک سبھا چناؤ کیلئے بھی یہی حکمت عملی استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے‘‘۔ پارٹی کو یہی امید ہے کہ ان کی مخالف کانگریس مہم کے ساتھ مودی کی کشش والی طاقت انہیں چناؤ میں کامیابی سے ہمکنار کرنے میںمعاون ہوں گے۔ دہلی میں کامیابی کے بعد عام آدمی پارٹی نے نوجوانوں سے رابطے کی حکمت عملی پر سنجیدگی سے غور کیا ہے اور اس طرح وہ کانگریس اور بی جے پی جیسی بڑی قومی جماعتوں کیلئے چیلنج بن کر ابھر رہی ہے جنھیں فوری طور پر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہوگی۔