شہد کی تلاش

میاں بھالو رات سے بھوکے تھے۔ صبح بھوک نے بہت ستایا تو سوچنے لگے کہ آج کہیں سے شہد مل جائے تو مزے آجائیں۔ یہی سوچتے ہوئے بھالو میاں نے اپنے دوست ببلو کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ میاں بھالو جب ببلو میاں کے پاس پہنچے تو وہ لیٹ کر کتاب پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے بھوکے بھالو کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ بھالو میاں بھی کچھ دیر کتاب پڑھتے رہے لیکن کتاب انہیں پسند نہیں آئی۔ کہنے لگے "یار ببلو ! کیا فضول کتاب پڑھ رہے ہو ، مجھے بتاؤ کہ شہد کہاں سے مل سکے گا۔” ببلو نے کہا۔” مجھے کیا پتہ، ہاں اگر تم الو کے پاس جاؤ تو بات بن جائے۔”میاں بھالو نے سن رکھا تھا کہ الو میاں بڑے دانا ہیں ، چنانچہ وہ الو کے پاس گئے اور کہا۔ "استاد جی ! یہاں کہیں شہد مل سکے گا۔” الو نے کہا۔ "اس سوال کا جواب صرف لومڑی ہی دے سکتی ہے، تم اس کے پاس جاؤ ، وہ ضرورتمہاری مدد کرے گی۔” بھالو میاں کو شدید بھوک لگی تھی چنانچہ وہ لومڑی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ تھوڑی دور جا کر انہوں نے دیکھا کہ بی لومڑی جا رہی تھی۔

وہ اسے دیکھتے ہی پکارے۔ "بی لومڑی ! ذرا ٹھہرؤ ، تم سے ایک بات کرنی ہے۔” جب وہ لومڑی کے پاس پہنچے تو وہی سوال دہرایا۔لومڑی نے کہا۔”ارے میاں اتنی سی بات ہے ، میں تمہیں شہد کا پتہ بتاتی ہوں۔ جنگل میں پیڑوں کی جھنڈ میں شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ ہے۔ وہاں چلے جاؤ۔” میاں بھالو شہد کے خیالی مزے لیتے ہوئے وہاں پہنچے۔ بھوکے تو تھے ہی ، جاتے ہی چھتے میں ہاتھ ڈالا تو تمام مکھیاں بھالو کو کاٹنے بھاگیں۔ میاں بھالو نے جب مکھیوں کو حملہ آور ہوتے دیکھا تو جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے اور چلاّنے لگے۔ "بچاؤ۔۔۔ بچاؤ۔” بڑی مشکل سے مکھیوں سے پیچھا چھوٹا اور انہوں نے دوسرے جنگل میں پناہ لی۔ ساتھیو ! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے ہرگز کوئی کام نہیں کرنا چاہئے۔