شہداء کا مقام و مرتبہ

اللہ کے راستے میں دین اسلام کی حفاظت کی خاطر خود کو شہادت کے لئے پیش کرنا ہر مسلمان کے لئے انتہائی درجہ سعادت و افتخار کا مقام ہے۔ چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جذبہ شہادت سے سرشار تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا فرمایا تھا، آپ نے سو سے زیادہ معرکوں میں شہادت کی تمنا لئے ہوئے حصہ لیا، لیکن شہادت ان کے مقدر میں نہیں تھی۔ وقت آخر خود کو مخاطب کرکے آپ فرمایا کرتے ’’اے خالد! یہ بھی کوئی موت ہے کہ تم بستر مرگ پر بکریوں کی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے ہو‘‘۔ شہادت کا اتنا اونچا مقام ہے کہ حشر کے دن فیصلہ ہونے کے بعد اللہ جل شانہ اپنے جنتی بندوں سے دریافت فرمائے گا کہ ’’آیا تم میں سے کسی کو تمنا ہے کہ دنیا میں لوٹا دیا جائے؟ تو صرف شہید عرض کریں گے کہ باری تعالی تو مجھے پھر دنیا میں لوٹا دے، تاکہ میں تیرے راستے میں سر کٹانے کی لذت دوبارہ حاصل کرسکوں‘‘۔شہداء کے تعلق سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انھیں مردہ نہ کہو، کیونکہ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور ان کو ہم رزق عطا کرتے ہیں‘‘۔ یوں تو تاریخ اسلام کی سب سے زیادہ مظلومانہ شہادت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی غزوہ احد میں واقع ہوئی، حتی کہ آپ کے ناک کان کاٹ دیئے گئے اور آپ کے جسم مبارک سے آپ کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا۔ ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہونے کا شرف رکھتے تھے۔ آپ کی شہادت بھی نہایت بے رحمی کے ساتھ ہوئی، حتی کہ آپ کے خریدے ہوئے کنویں کا پانی بھی آپ پر بند کردیا گیا تھا۔