شریعت کے خلاف نکات کو وقف ایکٹ سے حذف کرنے کا مطالبہ

حکومت اور عہدیداروں کو منشاء وقف میں تبدیلی کا اختیار نہیں : مفتی خلیل احمد

حیدرآباد ۔5 ۔ مئی ۔ (سیاست نیوز) شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ وقف ایکٹ میں شامل کئی امور شریعت سے ٹکراتے ہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ وقف ایکٹ سے ایسے نکات کو حذف کردے جو شریعت کے خلاف ہوں۔ آج اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے مفتی خلیل احمد نے کہا کہ شریعت میں دیگر قوانین کے تحت وقف بھی ایک مستقل قانون ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی جائیداد کو نیک مقصد کیلئے وقف کردے تو یہ تاحیات وقف رہتی ہے۔ حکومت اور کسی عہدیدار کو منشاء وقف میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ شریعت کے مطابق واقف کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ متولی مقرر کرے۔ اور متولی کا تعلق واقف کے خاندان سے ہی ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ متولی کسی کا ماتحت نہیں ہوتا اور اسے سرکاری ملازم کی طرح رکھنے یا نکالنے کا وقف بورڈ کو کوئی اختیار نہیں۔ حکومت منشاء وقف کی پابند ہوتی ہے۔ مفتی خلیل احمد نے اس استدلال کو مسترد کردیا کہ اوقافی جائیدادوں کی آمدنی مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ غلط ہے جس مقصد سے جائیداد وقف کی گئی ، اسی کیلئے آمدنی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک مسجد کی آمدنی دوسری مسجد کیلئے خرچ نہیں جاسکتی ۔ اگر کوئی نیک کام انجام دینا ہے تو اپنے ذاتی خرچ سے انجام دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ کی تیاری میں حکومت نے شریعت کو ملحوظ نہیں رکھا اور سیاسی افراد نے مختلف چیزیں شامل کردی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ درگاہوں اور بارگاہوں میں غلے میں بطور احترام ڈالی جانے والی رقم ہر رقم پرمتولی کا حق ہوتا ہے اور اسے وقف نہیں کہا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کو کسی درگاہ کے غلے ، چرم کے ہراج کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس طرح کا اقدام شرعی اعتبار سے ناجائز ہے۔ وقف بورڈ کی ذمہ داری اوقافی جائیدادوں کی نگہداشت اور تحفظ ہے۔ اگر کسی ادارہ میں قواعد کی خلاف ورزی پائے جائے تو وقف بورڈ اسے درست کرسکتا ہے۔ مفتی خلیل احمد نے کہا کہ غلطیوں کی اصلاح کرنا تو ٹھیک ہے لیکن اصلاح کے نام پر فساد پیدا کرنا مناسب نہیں۔ اگر وقف بورڈ اصلاحات کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہے تو علمائے کرام تعاون کیلئے تیار ہیں۔