شرعی عدالتوں کے قیام کو سپریم کورٹ میں مسلم خاتون کا چیلنج

طلاقِ ثلاثہ اور نکاح حلالہ پر تلخ تجربات کا تذکرہ ، متاثرہ خاتون ذکریٰ کی درخواست
نئی دہلی۔ 2 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے ایک مسلم خاتون کی تازہ درخواست پر غور کیا جس میں شادی، طلاق اور دیگر مقدمات پر فیصلے کیلئے شرعی عدالتوں کو غیردستوری قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ چیف جسٹس دیپک مصرا، جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ پر مشتمل ایک بینچ نے درخواست گذار ذکرہ کو ہدایت کی کہ مسلمانوں میں کثرت ازدواج اور نکاح حلالہ کے عمل کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کردہ مختلف درخواستوں سے متعلق مقدمہ میں ایک طریق کی حیثیت سے شمولیت کیلئے درخواست دائر کی جائے۔ کثرت ازدواج کے تحت کسی مسلم مرد کو بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ نکاح حلالہ کے تحت کوئی مسلم مرد اپنی سابق ؍ مطلقہ بیوی سے اس وقت تک دوبارہ شادی نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کی شادی کسی دوسرے شخص سے ہوجائے پھر اس سے طلاق کے بعد عدت کی مقررہ مدت مکمل کرتے ہوئے نکاح کیا جائے۔ اترپردیش کی ساکن 21 سالہ ذکریٰ 2 بچوں کی ماں ہے اور ایک وکیل اشوین اپادھیائے ان کی پیروی کررہے ہیں۔ اس مطلقہ خاتون نے مطالبہ کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ کو دفعہ 498A کے تحت ظلم قرار دیا جائے۔ علاوہ ازیں نکاح حلالہ، نکاح متعہ اور نکاح مسیارکو ہندوستانی تعزیرای ضابطہ کی دفعہ 375 کے تحت عصمت ریزی ؍ زنا بالجبر قرار دیا جائے۔ ذکرہ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی تعزیری ضابطہ کی دفعہ 494 میں کثرت ازدواج ایک جرم ہے۔ ہندوستانی مسلم پرسنل لا میں نکاح حلال اور کثرت ازدواج کی اجازت دی گئی ہے۔ ذکریٰ نے اپنی درخواست میں طلاق ثلاثہ، نکاح حلالہ اور دیگر قوانین و طریقوں سے ہونے والے اپنے تجربات بیان کی ہے۔ یہ عورت دو مرتبہ طلاق ثلاثہ اور پھر اپنے سابق شوہر کی زوجیت میں واپس کیلئے نکاح حلالہ کی تلخیوں سے گذر چکی ہے۔ ذکریٰ نے اپنی درخواست میں کہا کہ ’’شادی بیاہ، طلاق، تولیت، وراثت اور ایسے ہی دیگر مسائل پر فیصلے کرنے کیلئے شرعی عدالتوں کے قیام کو غیرقانونی اور غیردستوری قرار دیا جائے‘‘۔ اس مسلم خاتون نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ مسلم پرسنل لا دیگر تمام عائیلی قوانین بھی دستور کے تحت دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانت کے پابند ہونا چاہئے اور بنیادی حقوق سے مختلف و متضاد قوانین و طریقوں کو منسوخ و کالعدم قرار دیا جانا چاہئے۔