دلوں میں جوش نہ ذہنوں میں انقلاب آیا
نئی جو نسل ہے اُس پر عجب شباب آیا
شام کے لئے صدر ترکی کا احساس
امن کے قیام کا جذبہ اگر حقیقی معنوں میں دکھایا جائے تو انسانی سانحات کو جنم لینے سے گریز کیا جاسکتا ہے۔کسی بھی جنگ زدہ ملک میں انسانوں کو زندگی جینے کا حق دینا چاہئے لیکن شام کے تعلق سے ایسا معلوم ہوتا ہیکہ متعلقہ حکمرانوں اور عالمی قائدین نے شام کی تباہی کی قسم کھا لی ہے اس لئے اس ملک کو خون ریزی سے چھٹکارا دلانے کی انسانی ہمدردی کے ساتھ کوشش نہیں کی گئی۔ شام کے مسئلہ پر تہران میں منعقدہ کانفرنس میں روس، ترکی اور ایران کے سربراہوں میں خون ریزی کو روکنے میں اختلاف رائے پایا گیا۔ شام میں باغیوں کے آخری گڑھ ادلیب میں خون خرابہ سے گریز کرنے پر زور دیتے ہوئے صدر ترکی رجب طیب اردغان نے کہا کہ اگر ادلیب کو لہولہان کیا گیا تو یہاں سب سے زیادہ انسانی تباہی ہوگی۔ تقریباً 3 ملین افراد اس شہر میں مقیم ہیں۔ ان میں سے نصف تعداد تو شام کے مختلف علاقوں کو منتشر ہوگئے ہیں۔ ادلیب میں مقیم شہریوں کی سلامتی کی فکر رکھنے والے صدر ترکی رجب طیب اردغان نے جہاں تہران چوٹی کانفرنس میں اپنے انسانی جذبہ کو ظاہر کیا وہیں صدر روس ولادیمیر پوٹن نے ادلیب میں کارروائیوں کو روکنے سے انکار کردیا۔ ایک ہی اجلاس میں ایک ہی مسئلہ پر جب دو سربراہوں کا موقف مختلف ہو تو ایسے اجلاس یا چوٹی کانفرنس کا نتیجہ کیا ہوسکے گا۔ ادلیب کو اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کیوں کہ یہاں باغیوں کا مضبوط گڑھ ہے۔ اس کے علاوہ یہ شبہ ظاہر کیا گیا ہیکہ اس شہر میں تقریباً 15000 دہشت گرد بھی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ روس کو امریکہ سے اختلاف ہے اس ٹکراؤ کی وجہ سے شام کے ان علاقوں کو تباہ کیا جارہا ہے جہاں معصوم شہری اور ان کے بے بس بچے مقیم ہیں۔ روس، ترکی اور ایران نے اسی مقصد کے ساتھ باہمی اتحاد کیا ہے کہ شام کی صورتحال کا جائزہ لے کر متبادل راہیں نکالی جائیں لیکن جب تہران چوٹی کانفرنس کا نتیجہ ہی صفر نکلے تو شامی شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا یہ خونی کھیل ختم کرنے کی راہ مسدود ہوجائے گی۔ صدر روس پوٹن نے شام کو ادلیب پر حملے سے باز رکھنے کے بجائے یہ کہہ کر تائید کی کہ شام کو اپنے علاقے واپس لینے کا حق ہے۔ ترکی نے ہمیشہ ہی سے امن کی حمایت کی ہے۔ اس مرتبہ اسے شام کے مسئلہ پر آگے بڑھنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ شام کے باغیوں کی حمایت کرنے والے ترکی کو یہ تشویش ہے کہ اگر شام کے شہر ادلیب میں بڑے پیمانہ پر جنگ ہوتی تو ترکی کا بھی نقصان ہوگا کیونکہ اس کی جنوبی سرحد پر پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ روس نے شام میں جس طرح کا رول ادا کیا ہے اس کی امریکہ شدید مخالفت کرتا رہا ہے۔ بشارالاسد حکومت کو ایران کی حمایات پر اعتراضات ہورہے ہیں۔ اب مسئلہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ہے۔ اگر شام کی حکومت نے ایک بار پھر ان خطرناک کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کیا تو ادلیب شہر بھی قبرستان میں تبدیل ہوجائے گا۔ شام میں اقوام متحدہ کے سفیر کو یہی اندیشہ ہے کہ ادلیب میں کوئی کیمیائی کارروائی ہوتی ہے تو اس شہر کی بڑی آبادی کو خاموشی کے ساتھ موت کی نیند سلایا جائے گا جو اس دنیا میں سب سے بڑا انسانی المیہ ہوگا۔ اس طرح کی خطرناک کارروائیوں کو روکنے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کی جانی چاہئے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ نے برطانیہ، مصر، فرانس، جرمنی، اردن، سعودی عرب اور امریکہ کے نمائندوں کے ساتھ جنیوا میں ملاقات تو کی لیکن وہ سفارتی کوششوں کو آگے بڑھانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے یہ واضح نہیں ہے۔ شام کی تباہ کن صورتحال کو بہتر بنانے کی فکر رکھنے والے ترکی نے روس اور ایران کو راضی کرنے کی کوشش تو کی مگر اس میں پیشرفت نہیں ہوئی۔ اب یہ تینوں ممالک کے سربراہ ماسکو میں پھر ایک بار ملاقات کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو شام کی جنگ کی آگ پھیلنے سے پہلے ہی انہیں کوئی نہ کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں سے معیشت متاثر
ہندوستانی معیشت کی کمر توڑنے والی پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں پر اگر قابو نہیں پایا گیا تو آنے والے دنوں میں صرف تیل اور گیس پر انحصار کرنے والے شہریوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گذشتہ 10 دن سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے ہندوستانی معیشت کا ڈھانچہ ہی تباہ ہوجائے گا۔ ایک طرف روپیہ کی قدر گھٹ رہی ہے دوسری طرف مودی حکومت کی نامعقول ٹیکس پالیسی نے عوام کی جیب ہلکی کردی ہے۔ ایک آر ٹی آئی رکن کے سوال پر یہ سچائی بھی سامنے آئی ہے کہ مودی حکومت میں پٹرول اندرون ملک 86 روپئے کردیا گیا ہے تو اسی حکومت میں دیگر ممالک کو پٹرول آدھے دام میں فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہیکہ ہندوستانی عوام کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود وہ حکمراں طبقہ کے خلاف فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کے اندر ایک ایسی صورتحال پیدا کردی گئی ہے کہ حکمراں چاہے لاکھ غلطیاں کرکے عوام کو پریشاں کرے مگر انہوں نے اپنے حکمراں کے خلاف اف تک نہ کرنے کا عہد کرلیا ہے۔ عوام کی اس خاموشی کا ہی تو فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ عوام الناس کے رویہ کا افسوسناک پہلو یہ ہیکہ گذشتہ چار سال کی تکلیف دہ پالیسیوں کو چپ چاپ برداشت کرنے کی قسم کھائی ہے۔ عوام الناس کے روزمرہ بجٹ کو دھکہ پہنچتا جارہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھارت بند بھی منایا مگر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا جو حکومت عوامی مسائل کو ہی پس پشت ڈال چکی ہو تو اس کے سامنے احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ عوام کے اندر جو برداشت کا مادہ پایا جاتا ہے اس کو زیادہ دیر تک دبائے رکھا بھی نہیں جاسکتا۔ حکومت اگر اس بات کو نظرانداز نہ کرے تو اس کیلئے بہتر ہے۔