شام کی جیلوں میں ہزاروں لوگوں کو ایذا رسانی، موت کی سزائیں: ایمنسٹی

جنیوا، 8 فروری (سیاست ڈاٹ کام) انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ شامی حکومت نے دمشق کے نزدیک ایک فوجی جیل میں 13 ہزار قیدیوں کو پھانسی دی ہے اور منظم طریقہ سے ایذائیں دی ہیں ۔شام کی وزارت انصاف نے ایمنسٹی کی رپورٹ کو غلط بتایا ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو 2011 سے 2015 کے درمیان موت کے گھاٹ اتارا گیا اور یہ سلسلہ غالباً اب بھی جاری ہے اور یہ جنگی جرائم کے مترادف ہے ۔ اس نے اقوام متحدہ کے ذرائع اس کی مزید تفتیش کرائے جانے کی اپیل کی ہے جس نے پچھلے سال اسی طرح کی ایک رپورٹ پیش کی تھی اس میں بھی متعدد عینی شاہدین کی گواہیوں کی بنیاد پر الزام لگائے گئے تھے ۔شامی حکومت اور ژدر بشار الاسد وہاں جاری جنگ کے دوران ایذائیں دئے جانے اور بغیر مقدمہ کے لوگوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتارے جانے کی اسی طرح کی رپوٹوں کی ماضی میں بھی مسترد کرتے رہے ہیں اس خانہ جنگی میں اب تک لاکھوں جانیں جاچکی ہیں ۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دمشق کے شمال میں واقع سدنایہ فوجی قید خانہ میں اوسطاً ہر ہفتہ 20 سے 25 افراد کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے ۔ عوامی بغاوت کے خانہ جنگی میں تبدیل ہونے کے بعد چار سالوں میں یہاں پانچ سے تیرہ ہزار کے درمیان لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے ۔”مارے جانے والے لوگ بیشتر عام شہری تھے جو حکومت کی مخالفت کررہے تھے ”۔اس فوجی قیدخانہ کے متعدد کئی دیگر قیدیوں کو بار بار ایذائیں دے کر اور منظم طریقہ سے کھانے پینے دوا علاج سے محروم کرکے موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ جن لوگوٓں پر غداری کا شبہ تھا یا جو بغاوت میں شامل تھے ان پر فوجی عدالتوں میں جھوٹے مقدمے چلائے گئے انہیں کئی مرتبہ ٹارچر کرکے جرم قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا ۔ ان لوگوں میں سابق فوجی اہلکار بھی شامل تھے ۔شام کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘سنا’ نے وزارت انصاف کے حوالے سے کہا ہے کہ ایمنسٹی کے الزامات حقیقی ثبوتوں پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ’’انفرادی جذبات پر مبنی ہیں جن کا مقصد جانے پہچانے سیاسی مقاصد حاصل کرتا ہے ‘‘۔وزارت نے اس کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سرگرم باغی گروپوں پر عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام بھی لگایا۔