حُریت میں بھی فکر و اَلم کم نہیں
دورِ ماضی کا اب بھی ستم کم نہیں
شام کی جنگ اور امن
شام کی جنگ زدہ صورتِ حال کو دن بہ دن ابتر ہونے سے روکنے کے لئے اقوام متحدہ کے نام نہاد امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر شامی اپوزیشن گروپ کے نمائندے جنیوا مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں تو ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا ضروری ہے۔ ساری دنیا میں شام کے پناہ گزینوں کے مسئلہ پر ہونے والے ماتم اور یوروپی یونین کی سردمہری نے حالات کو مزید تشویشناک بنادیا ہے۔ جنیوا مذاکرات سے قبل دمشق کے جنوبی علاقہ میں حضرت سیدہ زینب ؓکے روضہ مبارک کے قریب 3 بم دھماکوں میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور 110 سے زائد زخمی ہوئے۔ شام کی سرکاری فوج کی جانب سے کئی شامی ٹاؤنس کا محاصرہ اور عوام کو فاقہ کشی کیلئے مجبور کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اُتارنے کی کوششوں کی عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے شدید مذمت کی ہے مگر حکومت شام اور اس کے حامی گروپ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ہرگز نوٹ نہیں لیا ہے۔ شام کے اندر رونما ہونے والے واقعات دراصل مخالف بشارالاسد حکومت گروپس اور شامی افواج کے درمیان تصادم اور غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ اس سے یوروپ میں پناہ گزیں کے بحران میں اضافہ ہورہا ہے۔ شام میں جاری شورش کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی ثالثی کو صرف ایک نشست یا دو نشست تک ہی محدود نہیں رکھا جانا چاہئے۔ مذاکرات کی حامی بھرنے والی تنظیموں کو حکومت شام کے نمائندوں سے بات چیت کے لئے جو ایجنڈہ مرتب کرنا ہے، اس پر غور کرنے کے ساتھ شامی پناہ گزینوں کی ابتر زندگیوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ سال 2011ء میں صدر شام بشارالاسد کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے بعد بھڑک اُٹھنے والی جنگ میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی نے مشرق وسطیٰ کی اب تک کی صورتحال کو سب سے زیادہ بھیانک بنا دیا ہے۔ ایک کروڑ 10 لاکھ افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ یہ عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی توجہ کے محتاج حالات ہیں۔ اقوام متحدہ کی مساعی ہے تو شام میں فی الفور جنگ بندی ہو اور امن کے قیام کے لئے سیاسی کوششوں کو کامیاب بنایا جائے۔ شام میں بشارالاسد حکومت کی بیدخلی ہی امن کا واحد راستہ سمجھا جارہا ہے تو اقوام متحدہ کو آئندہ 18 ماہ میں انتخابات کروانے کی حتمی کوشش کرنی چاہئے۔ اقوام متحدہ کی امن کوششیں صرف نام نہاد ثابت ہوں تو امن کی توقع موہوم ہوجائے گی۔ سعودی عرب کی حمایت والے اپوزیشن گروپ نے صدر شام بشارالاسد کی بیدخلی تک قیام امن کی توقع کو فضول قرار دیا ہے۔ شام میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کو یقینی اس وقت بنایا جاسکتا ہے جب صدر شام بشارالاسد عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اقتدار سے ہٹ جائیں۔ جنیوا مذاکرات کی پہل ایک مثبت کوشش ہے۔ ان مذاکرات کو کامیاب بنایا جانا ضروری ہے تاکہ شام کی صورتحال کا سیاسی حل تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔ بلاشبہ شام کے لئے عالمی طاقتوں کا منصوبہ امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس وقت شام کی اپوزیشن اور حکمران گروپ کو مذاکرات کی میز تک لانے کی کوشش کی ہے تو اس کوشش کو حتمی نتیجہ تک پہونچایا جانا چاہئے۔ شام کی صورتِ حال میں اپوزیشن گروپ کے خلاف روس کی مداخلت نے بھی حالات کو تشویشناک بنایا ہے۔ یہاں ہر گذرتے دن کے ساتھ حالات نازک ہورہے ہیں، کوئی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے۔ نتیجہ میں لوگ گھروں کو چھوڑ کر جارہے ہیں جن لوگوں کا سرکاری فوج نے محاصرہ کرلیا ہے، ان کی زندگی سسک سسک کر ختم ہورہی ہیں۔ ایسی دردناک کیفیت رکھنے کے باوجود حکومت شام کی پیشانی پر ذرا بھی بَل نہ آتا ہے تو یہ افسوسناک صورتِ حال ہے۔ شام کے انسانی بحران کو فی الفور ختم کرنے ، صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے اپوزیشن کے مطالبہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بشارالاسد واضح طور پر اپنے ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں تو پھر جنگ اور طاقت کے ذریعہ مزید انسانی بحران پیدا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ صدر بشارالاسد کے مستقبل کے تعلق سے عالمی طاقتوں کی منقسم رائے نے بھی شام کو خوفناک جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ شام کے مستقبل کا فیصلہ اگر شامی عوام پر چھوڑا جائے تو امن کی بحالی کے امکانات قوی ہوں گے۔ شام کو پرامن ملک بنایا جائے تو پناہ گزینوں کا بحران بھی ختم ہوگا۔ جتنے بھی شامی باشندے اپنے گھروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں، ان لوگوں کو دیگر ملکوں میں عارضی طور پر سہارا ملا ہے۔ اگر مستقبل میں یوروپ یا دیگر ملکوں کی پالیسیاں تبدیل ہوں تو پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس کردینے کی کوشش سے نیا بحران پیدا ہوگا۔