شام میں لاکھوں افراد محصور

شام میں گزشتہ پانچ سال سے جاری خانہ جنگی دن بہ دن انسانی حقوق کا سنگین بحران پیدا کررہی ہے۔ بشارالاسد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تصادم کا خطرناک انجام لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کی تباہی کی شکل میں ہورہا ہے۔ شام کا علاقہ حلب اس خانہ جنگی میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں بشارالاسد کی سرکاری افواج نے روس کی حمایت میں محاصرہ کرکے لاکھوں شامی باشندوں کو ترک وطن کرنے کے لئے مجبور کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے لئے یہ صورتحال تشویشناک حد تک غور طلب ہے۔ اگرچیکہ اقوام متحدہ نے ترکی سے خواہش کی ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو شامی باشندوں کے لئے کھول دے۔ لیکن ترکی میں اس وقت 2.5 ملین شام کے پناہ گزین مقیم ہیں۔ ترکی نے اپنی سرحدوں کو شامی باشندوں کے لئے کشادہ کرکے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن شام کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تصادم کی نوعیت میں کوئی نرمی نہیں دیکھی جاتی۔ اگر حکومت شام کی فوج اس علاقہ میں مزید پیشرفت کرتی ہے تو پھر حلب کے باغیوں کے علاقوں میں شہریوں سے جوڑنے والے آخری رابطہ بھی منقطع ہوجائیں گے۔ شام کی خانہ جنگی نے اب تک 11 ملین افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ شام کی حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کے درمیان جنگ بندی اور امن مذاکرات کے لئے جاری کوششیں بھی تعطل کا شکار بنادی گئی ہیں۔ شام کی صورتحال اس نظرانداز کردہ مرض کینسر کی طرح ہے جس کی اگر ابتدائی مرحلہ میں تشخیص کی جائے تو علاج و معالجہ میں آسانی ہوتی مگر اب شام میں دونوں جانب سخت موقف اختیار کرنے اور حکومت شام کی بالادستی کے ساتھ روس، ایران، حزب اللہ، لبنان کی سرپرستی ملنے سے خون ریزی میں کوئی کمی کی اُمید نظر نہیں آتی۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی پالیسی اور حکمت عملی پر افسوس ہوتا ہے کہ ان کی موجودگی کے باوجود انسانی بحران کی کیفیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ عالمی برادری اپنے حصہ کے طور پر غلطیوں پر غلطیاں کررہی ہے۔ شام کے عوام کو سرکاری افواج کی بمباری سے بچانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک طرف سرکاری فوج کی دہشت ناک کارروائیاں ہیں تو دوسری طرف فاقہ کشی کے شکار شامی باشندوں کی اموات کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ عرب بہار یا عرب تحریک کا پانچ سال قبل آغاز ہوا تھا لیکن یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ عرب بہار ایک دن شام میں خانہ جنگی کی بدترین کیفیت پیدا کردے گی۔ شام کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ملک کی سرزمین پر حکومت شام کے ساتھ مل کر روس دیگر مغربی ملکوں کے خلاف خفیہ جنگ میں مصروف ہے اور یہ نہایت ہی سنگین معاملہ ہے۔ شام کو ایک بڑی جنگ میں یا چوتھی عالمی جنگ کا مرکز بنانے کی درپردہ کوششوں کو فوری ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ شام اور یمن کی صورتحال کے پس منظر میں درپردہ طور پر سعودی عرب کے لئے جو خطرات پیدا کئے جارہے ہیں وہ آگے چل کر تباہ کن ہوں گے۔شام میں متصادم متحارب گروپس کو ہتھیار کون سربراہ کررہا ہے اور ان کی سرپرستی کرنے والے خفیہ ہاتھ کون ہیں، ان کا پتہ چلانا ضروری ہے۔ بظاہر شام کی جنگ زدہ زندگی کے عقب میں ایسی طاقتور فوجی قوت کارفرما دکھائی دیتی ہے جو خفیہ طور پر سرگرم ہے۔

شام کے عوام کی زندگیوں کے تحفظ کے نام پر ایک طاقت اپنی کارروائیوں کو جائز قرار دیتی ہے تو دوسری طاقت مخالف حکومت سرگرمیوں کو کچلنے کے لئے اپنی زیادتیوں کو درست مان رہی ہے۔ ایسے میں سارا خسارہ اور تباہی انسانوں کی ہورہی ہے۔ آگے چل کر یہ حالات عالم عرب کے سکون کو درہم برہم کرسکتے ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کی نام نہاد ڈپلومیسی منجمد ہوجائے گی۔ عالمی برادری کی اہمیت بھی دوہرے معیار میں تقسیم ہوجائے گی۔ شام کی تباہی کے لئے صدر بشارالاسد کو جتنا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اتنی ہی ذمہ داری عالمی برادری پر عائد ہوگی اور وہ جوابدہی کی قوت سے بھی محروم ہوجائے گی۔ عالمی برادری نے اب تک سرکاری عناصر اور سیاسی اپوزیشن کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں لیکن روس اور امریکہ کی خفیہ جنگی تصادم کی راہ پر کسی کی نظر نہیں جارہی ہے۔ شام کو جس طرح کا میدان جنگ بنایا جارہا ہے اس سے کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ شام کی حکومت پر یہ الزام بھی غور طلب ہے کہ اس نے قید خانوں کی حالت کو اتنا بدترین کردیا ہے کہ قیدی بے موت مررہے ہیں۔ جنگی جرائم کی بات کرنے والی عالمی برادری شام کے حالات کا اندازہ کرنے میں دانستہ طور پر غفلت برت رہی ہے تو آئندہ حالات نازک ہوں گے۔