شاعر مشرق سے موسوم ’ مینار اقبال ‘ کی بہتر انداز سے دیکھ بھال ضروری

این ٹی آر کے دور میں تعمیر کردہ تاریخی مینار سے اردو والے بھی غافل
حیدرآباد ۔ 11 ۔ نومبر : ( ابوایمل ) : مفکر اسلام علامہ اقبال کی یوم پیدائش کا اہتمام صرف دو روز قبل یعنی 9 نومبر بروز اتوار کو کیا گیاتھا ۔ اس مناسبت سے ہم نے ’ مینار اقبال ‘ واقع سکریٹریٹ ( سیف آباد ) کا جائزہ لینے کی کوشش کی جہاں انہیں اس حقیقت کا احساس ہوا کہ مشہور زمانہ فلسفی اور شاعر مشرق کی 50 ویں برسی کے موقع پر تعمیر کی گئی مینار اقبال کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت جس طرح کی حفاظت اور دیکھ بھال کا وہ مستحق ہے نہیں کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ 1988 میں اس وقت کے چیف منسٹر این ٹی راما راؤ نے علامہ اقبال کی ملک و قوم کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 21 اپریل 1988 میں علامہ اقبال کی 50 ویں برسی کے موقع پر مینار اقبال کو تعمیر کروایا تھا ۔ علامہ اقبال کا تحریر کردہ ترانہ ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ہر ہندوستانی کی زبان پر رہتا ہے جس سے ان کی حب الوطنی اور قوم کے تئیں ان کے لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے ۔ آج ہم اس موقع پر قارئین سیاست کو علامہ اقبال کا مختصر تعارف پیش کرنے کی ایک معمولی سی کوشش کررہے ہیں ۔ امید ہے یہ قارئین کی دلچسپی کا باعث اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے واقفیت کا سبب ہوگا ۔ تاریخی اعتبار سے علامہ اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877 کو ہوئی جو جدید دنیا کے اسلام کے بہت بڑے مفکر ، فارسی ، اردو زبانوں میں برصغیر کے ممتاز شاعر بے بدل حکیم الامت ، فلسفی اور وکیل تھے ۔ آپ کی پیدائش کشمیری شیخ نور محمد کے یہاں ہوئی جن کا خاندان 18 ویں صدی کے اوائل میں حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔ ان کے والد محترم اگرچہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ان کا مزاج صوفیانہ اور فلسفیانہ تھا ۔ دست کاری ذریعہ معاش تھا ۔ علامہ اقبال دو بھائیوں اور چار بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے ان کی ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں ہوئی ۔ بعد ازاں اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ سے میٹرک کی تکمیل کی اور پھر ایف اے کا امتحان بھی اسکاچ کالج سے ہی پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ حاصل کیا ۔ انہوں نے 1899 میں فلسفہ میں ایم اے کی تکمیل کی اور 1905 میں 3 سال کی رخصت لے کر انگلینڈ چلے گئے ۔ جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی اور جرمنی میں میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں اعلی ڈگریاں حاصل کیں ان دنوں وہاں سے ہی انہوں نے بیرسٹر ایٹ لا کے امتحانات بھی پاس کئے ۔ انہوں نے پی ایچ ڈی جرمنی سے کی ہے جہاں انہوں نے جو مقالہ تحریر کیا تھا وہ ’ ایران میں مابعد الطبیعات ‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ 1908 میں علامہ اقبال وطن واپس آگئے اور یہاں آکر وکالت شروع کی ساتھ ہی گورنمنٹ کالج کے پروفیسر بھی مقرر ہوئے ۔ قبل ازیں 1901 میں انہوں نے رسالہ مخزن جاری کیا تھا ۔ جس میں ان کی پہلی نظم شائع ہوئی تھی ۔ گویا یہاں سے علامہ اقبال کی اردو شاعری کا عوامی آغاز ہوا ۔ حالانکہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز طالب علمی سے ہوچکا تھا ۔ ابتداء میں وہ داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے ۔ بہر حال ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 1922 میں حکومت برطانیہ نے انہیں ’’سر ‘‘ کا خطاب دیا تھا ۔ بعد ازاں 1926 میں وہ پنجاب کی مجلس قانون سازی کے رکن منتخب ہوئے ۔ پھر 1933 میں پنجاب یونیورسٹی نے انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ۔ 1934 میں علی گڑھ یونیورسٹی نے بھی آپ کو ڈلٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ۔ بتایا جاتا ہے کہ 1935 سے آپ کو گلے کا مرض شروع ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا اور بالاخر 21 اپریل 1938 کو عالم اسلام کے یہ جلیل القدر مفکر اور شاعر اسلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ بہر حال ہماری اس رپورٹ کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جو اقلیتوں اور نظام دور حکمران کے تئیں انصاف پسند نظریہ رکھتے ہیں وہ دیگر تاریخی آثار کے ساتھ اس 26 سالہ پرانے ’ مینار اقبال ‘ کی دیکھ بھال اور اس کی مناسب حفاظت کے لیے بھی مناسب اقدامات کریں گے ۔۔