شادی بیاہ میں اسراف کے بجائے غریبوں کی مدد کی جائے

وقف بورڈ میں مشاورتی اجلاس ، کمشنر پولیس سرینواس راؤ ، مفتی خلیل احمد ، قبول پاشاہ،جعفر پاشاہ، حامد محمد خاں اور دوسروں کا خطاب
حیدرآباد۔23 ۔ جنوری (سیاست نیوز) کمشنر پولیس گریٹر حیدرآباد وی وی سرینواس راؤ نے کہا کہ شادی بیاہ کے موقع پر دکھاوا اور اسراف کے بجائے غریب خاندانوں کی مدد کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ تقاریب کے موقع پر شان و شوکت کیلئے اکثر لوگ دولت کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور اس معاملہ میں مسابقت دیکھی جارہی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ تقاریب کو سادہ بناتے ہوئے اسراف کی رقم کو غریبوں اور اپنے خاندان پر خرچ کیا جائے۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کمشنر پولیس نے کہا کہ حیدرآباد کی تہذیب کو ملک بھر میں منفرد مقام حاصل ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس کا تحفظ کرے اور حیدرآباد کی شبیہ بگڑنے سے بچائے ۔ انہوں نے کہا کہ شادیوں اور دیگر تقاریب کے موقع پر رات بھر جاگنا دراصل پولیس کی مداخلت کو دعوت دیتا ہے۔ رات دیر گئے تقاریب سے نوجوان نسل برائیوں میں مبتلا ہورہی ہے۔ انہوں نے تقاریب کے رات 12 بجے اختتام کی مہم کی تائید کی اور کہا کہ اس سلسلہ میں شعور بیداری کے ساتھ حکومت کو گائیڈ لائینس جاری کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ دن اور رات میں پولیس کام کاج مختلف ہوتا ہے اور پولیس کیلئے بھی حدود متعین ہے۔ کسی بھی معاملہ میں پولیس کی مداخلت کیلئے حکومت سے رہنمایانہ خطوط ضروری ہے۔ سرینواس راؤ نے کہا کہ ہندوؤں میں مہورت کے باعث مقررہ وقت پر شادی منعقد ہوتی ہے جبکہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں اس طرح کا کوئی نظم نہیں۔ اگر مذہبی قائدین اور عوامی نمائندے دلچسپی لیں تو پولیس مکمل تعاون کیلئے تیار ہے۔ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ ان تمام کی ذمہ داری ہے کہ معاشرہ میں برائیوں کے خاتمہ کی مہم چلائیں۔ انہوں نے تمام تجاویز کو قابل عمل بنانے کی ضرورت ظاہر کی اور کہا کہ رات 12 بجے تقاریب کا اختتام سختی سے ہونا چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ اصلاح معاشرہ کیلئے مسلمانوں میں مہم جاری ہے لیکن اسی کامیابی کیلئے قانونی گرفت ضروری ہے۔ پولیس قانون سازی کے ذریعہ برائیوں کو روک سکتی ہے۔ انہوں نے شادی کے موقع پر بیانڈ باجہ اور دیگر برائیوں کے خاتمہ پر زور دیا۔ مولانا عبیدالرحمن نے کہا کہ نکاح سنت کے مطابق ہونا چاہئے لیکن آج سنت کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ انہوں نے چینائی کی مثال دی جہاں مسجد میں ایک ساتھ کئی نکاح منعقد ہوتے ہیں۔ مولانا عبیدالرحمن نے کہا کہ کھانے کے اوقات میں تبدیلی اور معمولاتِ زندگی میں فرق کے باعث حیدرآباد میں شوگر کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے اور ملک میں حیدرآباد شوگر کا دارالحکومت بن چکا ہے۔ مولانا سعادات پیر بغدادی نے سنت کی پیروی کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ ہم تقاریب کے موقع پر شریعت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ بیجا رسومات اور رات دیر گئے تقاریب سے دوسرے شہریوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ مولانا قبول پاشاہ قادری نے اجلاس کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ رات دیر گئے نکاح کے انعقاد سے طلاق کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اثر اور مغرب کے درمیان نکاح کی صورت میں نئے جوڑے میں محبت پھیلتی ہے۔ انہوں نے بیجا رسومات کے خاتمہ کیلئے خواتین میں مہم چلانے کی ضرورت ظاہر کی ۔ ڈاکٹر نثار حسین حیدر آغا نے کہا کہ رات دیر گئے کی تقاریب ہر کسی کیلئے مسئلہ بن چکی ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل میں اسراف اور برائیوں کے خلاف مہم کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہر سطح پر مہم چلائی جائے۔ مولانا آصف عمری جمیعت اہل حدیث نے کہا کہ مسلمان خیر امت ہیں اور شادیوں کو آسان کرنا اور برائیوں کو مشکل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ صدر مسلم شبان جناب مشتاق ملک نے پولیس سے خواہش کی کہ وہ بارات کی اجازت نہ دیں کیونکہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے مسجد میں نکاح اور سادگی سے ضیافت کرنے پر زور دیا۔ مولانا حامد محمد خاں امیر جماعت اسلامی نے شادیوں کو برائیوں سے پاک کرنے کی وکالت کی اورکہا کہ سماج کے ذمہ دار اس سلسلہ میں اہم رول ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کے مطابق نکاح کے انعقاد سے نہ صرف نوجوان نسل بلکہ سماج سے برائیوں اور جرائم کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ مولانا حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ نے کہا کہ نکاح کو سنت طریقہ سے منعقد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کی تقاریب میں دکھاوا عام ہوچکا ہے۔ انہوں نے اسراف اور خرافات کی شادیوں کا بائیکاٹ کرنے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص اصلاح چاہتا ہے لیکن عمل نہیں کیا جاتا۔ قاضی صاحبان نے تجویز پیش کی کہ مقررہ وقت پر نکاح کیلئے پولیس قاضیوں سے تعاون کریں۔ صدر تعمیر ملت جناب جلیل احمد نے کہا کہ جس طرح پولیس نے سود خوری اور توہم پرستی کے خلاف کامیابی سے مہم چلائی ہے، اسی طرح تقاریب کے مقررہ وقت پر اختتام کی مہم چلائی جائے۔ ڈپٹی کمشنر ساؤتھ زون ستیہ نارائنا نے کہا کہ صرف دباؤ کے ذریعہ اصلاح کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کے ساتھ مذہبی قیادت کو بھی تعاون کرنا چاہئے۔ انہوں نے ناچ گانے اور آرکسٹرا کی مخالفت کی اور سماج سے کنٹراکٹ میاریجس کے خاتمہ کیلئے قاضیوں کو پابند کیا۔ انہوں نے کہا کہ قاضیوں کا اہم رول ہوتا ہے اور وہ کسی بیرونی شہری سے کمسن لڑکیوں کا نکاح نہ کریں۔ دیگر پولیس عہدیداروں نے بھی بارات میں ہتھیاروں سے رقص اور دیگر برائیوں کے خلاف مہم میں تعاون کا یقین دلایا۔