حیدرآباد ۔ 23 فبروری (نمائندہ خصوصی) عام آدمی کی خاص بات کالم میں ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہیکہ اس کالم میں ایسے عام لوگوں کو آپ کے روبرو پیش کیا جائے جسے دیکھ، پڑھ اور سن کر آپ کوئی نہ کوئی سبق حاصل کریں اور وہ کسی نہ کسی پہلو سے ہمارے لئے مثبت اثرات کا سبب بن سکے۔ آج ہم نے اپنے اس کالم کیلئے ایک ایسے ضعیف شخص کا انتخاب کیا ہے جن کی پوری زندگی جہد مسلسل، محنت شاقہ اور خون پسینہ ایک کردینے والی مثال ہے۔ دراصل آج میری ملاقات 70 سالہ جناب محمد اقبال سے ہوئی جن کی زندگی کے 50 سال سڑکوں اور فٹ پاتھس کی نذر ہوگئے۔ آج ہم نے چارمینار کے دامن میں ان سے ملاقات کی جہاں وہ برسوں سے قدیم سکے اور انگوٹھیوں کے نگینے خواہشمندوں میں فروخت کررہے ہیں۔ اقبال صاحب نے بتایا کہ جب تک ان کے بدن میں طاقت و قوت تھی انہوں نے حمالی کی، سامان ڈھویا اور لوگوں کا بوجھ اٹھا کر اپنا معاشی بوجھ کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد تقریباً 25 سال تک انہوں نے رکشہ چلایا تاکہ کسی طرح اپنی بیوی بچوں کی کفالت کرسکیں مگر طویل عرصہ تک حمالی کرنے اور رکشہ کھینچنے کے نتیجہ میں وہ استھما جیسی بیماری کا شکار ہوگئے اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب وہ بوجھ اٹھانے اور بوجھ کھینچنے کے قابل نہیں رہے تو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر قدیم سکے اور انگوٹھی کے نگینے فروخت کررہے ہیں اور اس طرح آج بھی اپنے گھر کا معاشی بوجھ وہ ہی اٹھا رہے ہیں۔ ایک سوال پر کہ آپ کے کتنے بیٹے ہیں اور کیا وہ یہ ذمہ داری نہیں اٹھاتے؟ تو انہوں نے کہا کہ انہیں چار بیٹے ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ بتانا میں مناسب نہیں سمجھتا، ہم ان کا اشارہ سمجھتے ہوئے موضوع بدل کر دوسرا سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ جئے پور سے یہ قدیم سکے اور نگینے ہول سیل قیمت میں خریدنے کے بعد اس کو الگ کرکے فروخت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک جسم میں جان ہے میں اسی طرح محنت کرتا رہوں گا۔ پژمژدہ آنکھیں ان کی عمر کا پتہ بتانے کیلئے کافی ہیں مگر جب ان کا حوصلہ دیکھا، کام کا جذبہ اور ذمہ داری کا احساس دیکھا تو اپنے شہر کے وہ نوجوان بھی سامنے نظر آنے لگے جو ہمارے شہرمیں روزگار کے بے شمار مواقع رہنے کے باوجود بیروزگاری اور مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کاش! یہ نوجوان جناب محمد اقبال جیسی شخصیت سے کچھ تو سبق حاصل کرتے۔