کودنڈارام کا خطاب ‘ یوم آزادی منانے دتاتریہ کے مطالبہ کو ٹی آر ایس نے بھی مسترد کردیا
حیدرآباد ۔ 12ستمبر ( پی ٹی آئی ) سینئر بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ نے آج کہا کہ حکومت تلنگانہ کو چاہیئے کہ وہ 17ستمبر کو یوم آزادی حیدرآباد کے طور پر منانا چاہیئے لیکن تلنگانہ پولیٹیکل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اصرار کیا کہ اس موقع کو ’’ یوم آزادی ‘‘ کے طور پر نہیں بلکہ یوم انضمام و یکجہتی ‘ کے طور پر منانا چاہیئے ۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے 17ستمبر کو منائی جانے والی سرکاری تقاریب کے ضمن میں طلب کردہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر دتاتریہ نے کہا کہ ’’ ہمارا ( بی جے پی کا ) موقف واضح ہے ۔ حکومت تلنگانہ کو چاہیئے کہ وہ 17ستمبر کو یوم آزادی حیدرآباد منایا جائے لیکن حکمراں ٹی آر ایس نے ان کی اس تجویز کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ یوم آزادی نہیں بلکہ انضمام ہے ۔ تلنگانہ جے اے سی کے چیرمین ایم کودنڈارام نے کہا کہ حیدرآباد کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کے حامل کے دن 17ستمبر کو فراموش کردیا گیا ہے ۔ کودنڈارام نے کہا کہ ’’17ستمبر 1948 وہ دن ہے جب ریاست حیدرآباد جو نظام کی حکمرانی میں تھی انڈین یونین میں ضم کی گئی تھی جس کو نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ نظام دور حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور یہ ( ریاست حیدرآباد) عوامی جمہوریہ ہند کا حصہ بن گئی ‘‘ ۔ پروفیسر کودنڈارام نے وضاحت کے ساتھ مزید کہا کہ ’’ چند افراد کہتے ہیں کہ اُس روز ہم آزاد ہوئے تھے اور دوسروں کا کہنا ہے کہ 17ستمبر کے بعد سے ہماری مصیبتوں کا آغاز ہوا ہے لیکن واضح رہے کہ تلنگانہ ایجی ٹیشن ( علحدہ ریاست کی تحریک) کے آغاز کے بعد یہ اتفاق رائے بھی پیدا ہوا کہ 17ستمبر ’’ یوم انضمام و یکجہتی ہے‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہمیں کم سے کم اس تاریخی حقیقیت کو تسلیم کرلینا چاہیئے کہ یہ ( ریاست حیدرآباد) ہندوستانی یونین میں شامل ہوئی ھتی اور اس سے ہمیں مقامی تاریخ کا نوٹ لینے کا موقع دیا جانا چاہیئے نیز علاقہ کی واضح خصوصیات پر غور و بحث کی جانی چاہیئے ‘‘ ۔ کودنڈارام نے کہا کہ ’’اس بات پر تمام کی اتفاق رائے یہ ہے کہ یوم انضمام و یکجہتی منایا جائے ۔ اس دن کو یوم آزادی نہ کہاجائے اور نہ ہی یوم دغابازی کہا جائے بلکہ ہمیں اس دن کو یوم انضمام و یکجہتی کے طور پر تسلیم کرلینا چاہیئے ‘‘ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اس مسئلہ پر کسی تصادم یا تنازعہ میں ملوث ہونے کے بجائے ہمیں مذاکرات کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرلینا چاہیئے ۔ ہمیشہ یہی بہتر رہتا ہے کہ بات چیت کے ذریعہ اتفاق رائے پیدا کیا جائے ‘‘ ۔
( تفصیلی خبر صفحہ 9پر )