داغ تھے چہرے پہ لیکن صاف آئینہ کیا
پھر نظر آئیں اگر جو داغ تو کس کا قصور
سی بی آئی کی امیج مشکوک
سنٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن ( سی بی آئی ) ملک کی ایک اعلی ترین تحقیقاتی ایجنسی سمجھی جاتی ہے اور اس کے ذریعہ کسی بھی معاملہ یا اسکام کی تحقیقات کا اعلان ہوتا ہے تو یہ امید بندھ جاتی ہے کہ اب اس میں ہر طرح کے حقائق کو منظر عام پر لانے میں مدد ملے گی اور خاطیوں کے چہرے بے نقاب ہوجائیں گے ۔ ماضی میں سی بی آئی نے واقعتا ایسا کام بھی کیا ہے اور اس نے کئی اہم اسکامس کی تحقیقات میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی ۔ تاہم گذشتہ کچھ عرصہ سے سی بی آئی کا امیج متاثر ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ کسی نہ کسی معاملہ میں کسی نہ کسی انداز سے جانبداری کے شبہات کا مسلسل اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ حکومتوں کی جانب سے بھی اس اعلی ترین تحقیقاتی ایجنسی کے بیجا استعمال کا الزام بھی اب عام ہوتا جا رہا ہے ۔ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ ریاستی سطح پر بھی حکومتوں پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ سی بی آئی کو سیاسی مخالفین کو خاموش کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس تعلق سے ہمیشہ صرف الزامات ہی عائد کئے جاتے رہے ہیں ۔ ان الزامات میں کہیں نہ کہیں سچائی بھی نظر آتی ہے اور اس کی مثالیں بھی ہمار ے سامنے موجود ہیں۔ جس طرح سے سی بی آئی کی تحقیقات کا آغاز ہوتا ہے اسی طرح اس کا اختتام نہیں ہو رہا ہے ۔ کئی مقدمات میں تحقیقات کی شروعات تو اچھی ہوتی ہے لیکن پھر ملک میں سیاسی حالات بدل جاتے ہیں اور سی بی آئی تحقیقات اور مقدمات میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ کچھ مہینے یا برس قبل جو مقدمات تحقیقات کا انتہائی اہم موڑ اختیار کرتے ہیں وہ برفدان کی نظر ہوجاتے ہیں اور جن کے خلاف مقدمات ہوتے ہیں وہ کلین چٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں یہ الزامات پورے کے پورے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ سی بی آئی کو حکومتوں کی جانب سے استعمال کیا گیا ہے ۔ اس میں سیاسی رقابتیں برسر کار رہی ہیں اور پھر سیاسی مفاد پرستی کے لئے بھی اسی تحقیقاتی ادارہ کو استعمال کیا گیا ہے ۔ گذشتہ دنوں سی بی آئی کے ایک اعلی عہدیدار نے انکشاف کیا کہ ان پر تحقیقاتی عمل کے دوران 2G اسپیکٹرم اور کوئلہ الاٹمنٹ اسکامس کی تحقیقات کے دوران کچھ قائدین کے نام حذف کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تھا ۔
ان حالات کے علاوہ اب سی بی آئی کے سربراہ پر بھی توجہ ہوتی جا رہی ہے اوریہ انکشاف ہوا ہے کہ سی بی آئی سربراہ نے 2G اسپیکٹرم الاٹمنٹ اور کوئلہ اسکام میں تحقیقات کا سامنا کرنے والے افراد سے ملاقات کی ہے ۔ سماجی کارکن اور معروف وکیل پرشانت بھوشن سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ہیں۔ سی بی آئی سربراہ کی قیامگاہ پر وزیٹرس بک کا جو ریکارڈ رکھا جاتا ہے اس سے بھی سی بی آئی سربراہ کی انیل امبانی کی انیل دھیروبھائی امبانی گروپ کے دو عہدیداروں سے ملاقات کی توثیق ہوچکی ہے ۔ خود سی بی آئی سربراہ اب اس ملاقات سے انکار کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اور وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ملاقات ضرور ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کمپنی کیلئے کوئی مدد نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی غیر قانونی کام کیا ہے ۔ سی بی آئی سربراہ کا ادعا ہے کہ ان کی ان عہدیداروں سے اپنی قیامگاہ پر ملاقات بھی کوئی غلط بات نہیں ہے کیونکہ وہ گھر پر بھی ایک دفتر رکھتے ہیں اور وہاں سے بھی کام کرتے ہیں۔ سی بی آئی سربراہ کا الزام ہے کہ ان پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے اور ایک سازش کے تحت انہیں ان حالات کا شکار کیا جارہا ہے ۔ پرشانت بھوشن نے موجودہ سی بی آئی سربراہ رنجیت سنہا کی ملاقا ت کو بنیاد بناتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ چونکہ سی بی آئی کی جانب سے ہی کوئلہ اسکام کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اس لئے مسٹر رنجیت سنہا کو تحقیقات کے اس عمل سے دور رکھا جانا چاہئے ۔ ملک کی اعلی ترین عدالت میں پرشانت بھوشن کی اس درخواست پر منگل سماعت ہونے والی ہے ۔ بات صرف کسی ایک تحقیقاتی مقدمہ کی سماعت یا کچھ عہدیداروں سے ملاقات کی حد تک محدود نہیں ہے ۔ سی بی آئی چونکہ ہندوستان کی ایک اعلی ترین ایجنسی ہے اور اس پر عوام کا اچھا ایقان رہا ہے ایسے میں اگر سی بی آئی کی حالیہ کارکردگی کو دیکھا جائے اور جو الزامات اس پر عائد ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ سی بی آئی کا کچھ موقعوں پر بیجا استعمال ہوا ہے اور اسے حکومتوں کے اشارے پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔ حساس نوعیت کے بے شمار مقدمات ایسے ہیں جن میں سی بی آئی کے فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج کیا جارہا ہے اور عدالتیں ایسی درخواستوں کو قبول بھی کر رہی ہیں۔ اس سے سی بی آئی کی اعلی ترین تحقیقاتی ایجنسی کی حیثیت سے جو امیج رہی ہے وہ متاثر ہوتی جا رہی ہے اور جب تک اس امیج کو بہتر بنانے اور بحال کرنے کیلئے سنجیدگی کا ثبوت نہیں دیا جاتا اس وقت تک عوام کے بھروسہ کو بحال کرنا ممکن نہیں ہوگا۔