سی بی آئی میں خرابیوں کو دور کرنے غیرمعمولی کارروائی ضروری

سپریم کورٹ میں مرکز کے فیصلہ کے خلاف سی بی آئی ڈائرکٹر آلوک ورماکی درخواست پر سماعت
نئی دہلی ۔ 6 ڈسمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) سنٹرل ویجلنس کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سی بی آئی کے اندر پائی جانے والی خرابیوں اور غیر معمولی حالات سے نمٹنے کیلئے غیر معمولی کارروائی کرنا ہی ضروری ہے ۔ مرکز کے فیصلہ کے خلاف سی بی آئی ڈائرکٹر آلوک ورما کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عالیہ میں سی وی سی نے اپنا ادعا پیش کیا ۔ آلوک ورما نے انہیں رخصت پر روانہ کرنے اور ان کے اختیار کو سلب کرنے مرکز کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ہے ۔ سنٹرل ویجلنس کمیشن کی جانب سے پیروی کرتے ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا اور سی بی آئی پر نگرانی کرنے والے قوانین کا بھی تذکرہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ سنٹرل ویجلنس کمیشن کو سی بی آئی پر برطری حاصل ہے ، اس لئے سی بی آئی کے اندر پیدا ہوئی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اسے اختیارات حاصل ہے ۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیرقیادت بنچ سے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ سی بی آئی میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ جولائی سے مزید ابتر ہوئے ہیں ۔ ان حالات کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کی جانب سے سخت کارروائی لازمی تھی ۔ اس پر عدالت نے کہا کہ یہ سی بی آئی ڈائرکٹر یا خصوصی ڈائرکٹر راکیش آستھانہ کے درمیان لڑائی کا معاملہ نہیں ہے جو راتوں رات سامنے آیا ہے ۔ حکومت کو مجبوراً سیلکشن کمیٹی سے مشاورت کے بغیر ڈائرکٹرس کے اختیارات کو سلب کرنا پڑا ۔ اس نے مزید کہا کہ حکومت اس اس معاملہ میںانصاف پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ سی بی آئی ڈائرکٹر کے اختیارات سلب کرنے سے قبل حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ سیلکشن کمیٹی سے مشاورت کرتی ۔ عدالت عالیہ نے مزید کہا کہ کسی بھی حکومت کو کارروائی کرنا چاہیئے اس کیلئے اس سے بہتر طریقہ اختیار کرنا چاہیئے ۔ چیف جسٹس نے سی وی سی سے یہ بھی کہا کہ آخر حکومت کو اس طرح کی سخت کارروائی کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور یہ واقعہ راتوں رات وقوع پذیر نہیں ہوا ہے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں نے مقدمات کی تحقیقات کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کی تحقیقات شروع کردی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ سی وی سی کے دائراختیار میں ہے کہ وہ اپنے طور پر تحقیقات کرتے ہوئے بے سمتی کا شکار عہدیداروں کو راہ راست پر لایا جائے ، اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہے تو اس معاملہ کو صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا ۔