سیکولرازم اور ہندوتوا ، ٹی آر ایس اور مقامی جماعت کس کے ساتھ؟

عوام کانگریس زیر قیادت عظیم اتحادکے ساتھ، ٹی آر ایس اور حلیف جماعت بے نقاب
حیدرآباد۔/30نومبر، ( سیاست نیوز) انتخابات کے موسم میں رنگ بدلنا بعض سیاسی جماعتوں کی عادت بن چکی ہے۔ انہیں نظریات سے زیادہ اپنے مفادات کی تکمیل کی فکر ہوتی ہے لہذا وہ ہر الیکشن میں کسی نہ کسی محاذ یا پارٹی سے خود کو وابستہ کرلیتے ہیں ۔ ایسی پارٹیوں کی انفرادی طور پر عوام میں کوئی طاقت نہیں ہوتی لیکن تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں سیاسی منظر دو نظریات کے درمیان منقسم ہوچکا ہے۔ کانگریس زیر قیادت عوامی اتحاد سیکولرازم کا علمبردار ہے جبکہ ٹی آر ایس اور بی جے پی بظاہر علحدہ مقابلہ کررہے ہیں لیکن دونوں کے نظریات میں یکسانیت ہے۔ ٹی آر ایس کی بی جے پی سے قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ گزشتہ 4 برسوں میں ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ اور اس کے باہر ہر موڑ پر بی جے پی کی تائید کی حتیٰ کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے و شریعت میں مداخلت سے متعلق طلاق ثلاثہ آرڈیننس کی بھی ٹی آر ایس نے تائید کی۔ مقابلہ بھلے ہی علحدہ ہو لیکن کوشش یہی ہے کہ دونوں جہاں مضبوط ہوں ایک دوسرے کو اپنے ووٹ منتقل کرکے کامیاب بنائیں تاکہ عوامی اتحاد کے برسراقتدار آنے کے امکانات کم ہوجائیں۔ تلنگانہ کے رائے دہندوں نے گزشتہ چار برسوں میں ٹی آر ایس کی سرگرمیوں کو اچھی طرح بھانپ لیا ہے اور وہ 7 ڈسمبر کو عوامی اتحاد کے حق میں رائے دینے کی ٹھان چکے ہیں۔ کانگریس نے سیکولرازم کے فروغ کیلئے دیرینہ حریف تلگودیشم کو بھی محض اس مقصد سے اتحاد میں شامل کرلیا کہ تلنگانہ میں فرقہ پرست نظریات کو شکست دی جاسکے۔ محاذ میں تلگودیشم کے علاوہ تلنگانہ جنا سمیتی اور سی پی آئی بھی شامل ہیں۔

انتخابی منظر اگرچہ واضح ہے لیکن حیدرآباد کی مقامی جماعت کے موقف کے بارے میں صورتحال غیر واضح ہے۔ مقامی جماعت آخر کس نظریاتی گروپ کے ساتھ ہے؟۔ مقامی جماعت کے قائدین انتخابی مہم کے دوران عوامی اتحاد کو نشانہ بنارہے ہیں اور ٹی آر ایس حکومت کے کارناموں کی تعریف و توصیف کرکے عوام سے تائید کی اپیل کی جارہی ہے۔ ٹی آر ایس اور بی جے پی کی خفیہ مفاہمت کے واضح ہوجانے کے بعد مقامی جماعت کی ٹی آر ایس کو تائید غیر معلنہ طور پر تینوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔ رائے دہندے جان چکے ہیں کہ سیکولر اور ہندوتوا نظریات کے درمیان اس لڑائی میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ جس طرح ملک میں دو رُخی سیاسی نظام فروغ پارہا ہے اسی طرح تلنگانہ میں سیکولرازم اور ہندوتوا کے درمیان ٹکراؤ ہے۔ مدھیہ پردیش، راجستھان و چھتیس گڑھ میں کانگریس کا راست مقابلہ فرقہ پرستوں سے ہے۔ تینوں ریاستوں کے عوام فرقہ پرستی سے عاجز ہیں۔ جس طرح تینوں ریاستوں میں سیکولرازم کے حق میں عوامی لہر دیکھی جارہی ہے عین ممکن ہے کہ تلنگانہ کے نتائج بھی کانگریس زیر قیادت اتحاد کے حق میں ہوں گے۔ عوام کے مختلف گوشوں میں سوشیل میڈیا پر اس بارے میں مباحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ دانشور طبقہ چاہتا ہے کہ عوام مستقبل میں تلنگانہ کو فرقہ پرستوں کے چنگل سے بچانے کانگریس زیر قیادت اتحاد کا ساتھ دیں اور سیکولرازم کے بھیس میں فرقہ پرست طاقتوں کے ہمدردوں اور ایجنٹس سے چوکس رہیں جو بالواسطہ طور پر سیکولر ووٹ تقسیم کرکے بی جے پی کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ کے عوام باشعور ہیں اور وہ اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں انتخابات میں حصہ لے کر جس طرح بی جے پی کی مدد کی گئی اب تلنگانہ میں راست بی جے پی اپنے قدم جمانا چاہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ٹی آر ایس اور حلیف جماعت اس میں مددگار ثابت ہوں۔