حیدرآباد ۔ 4 ۔ جون : اختراعی و تخلیقی صلاحیتیں انسان کو کامیابی و کامرانی کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہیں جس انسان میں کچھ کرنے کی تمنا ہو اور وہ اپنے چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا فن سیکھ لے تو سمجھئے کے اس نے کامیابی و خوشحالی کا گر سیکھ لیا ہے لیکن کامیابی یوں ہی نہیں مل پاتی ۔ آپ کو ہمیشہ دوسروں سے ممتاز و منفرد رہنا ہوگا ۔ ایسے کام کرنے اور کارنامے انجام دینے ہوں گے جو دوسروں کے لیے باعث حیرت و رشک ہو ۔ قارئین … آج ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت ایک ایسے آرٹسٹ سے ملاتے ہیں جو کم عمری سے ہی ایسے کام کئے جو دوسروں کی سوچ سے باہر تھے ۔ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا نہ صرف ہندوستان بلکہ مشرق وسطیٰ سے لے کر مغربی ممالک تک منوایا ۔
یہ ہیں سیرامک اور کرسٹل آرٹ کے ماہر جناب سید عظمت اللہ جنہوں نے خود کو ہمیشہ عصری ٹکنالوجی سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے دوسروں کے لیے ایک مثال بن گئے ہیں ۔ حیدرآباد کے ایک علمی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے جناب سید عظمت اللہ کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ ساری دنیا میں انہیں ایک منفرد قسم کا سیرامک اور کرسٹل آرٹسٹ مانا جاتا ہے ۔ وہ شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے مشہور و معروف طبیب حکیم سید قدرت اللہ حسامی سابق پرنسپل نظامیہ طبی کالج چارمینار کے فرزند ہیں ۔ ایک ملاقات میں انہوں نے اس فن سے ان کی رغبت کے بارے میں بتایا کہ بچپن سے ہی انہوں نے ہر اس چیز پر توجہ دی جو لوگوں کے لیے بالکل نئی تھی ۔ مثال کے طور پر انہوں نے 1969 میں کمپیوٹرس کے کئی کورس مکمل کرلیے تھے اس زمانے میں اکثر لوگ لفظ کمپیوٹر سے بھی ناواقف تھے وہ کمپیوٹر کورس کی تکمیل پر پہلی مرتبہ سند لے کر حیدرآباد پہونچے تھے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے سید عظمت اللہ کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ریاستی محکمہ مردم شماری میں ملازمت دی گئی ۔
جہاں وہ کمپیوٹر آپریٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ اس دور میں سید عظمت اللہ کو کمپیوٹر آپریٹ کرتے ہوئے دیکھ کر دیگر عہدیدار حیرت میں پڑ جاتے اور انہیں ان ( عظمت اللہ ) پر رشک ہوتا ۔ بھلائی اسٹیل پلانٹ میں بھی انہوں نے خدمات انجام دیں ۔ اسٹیل اتھاریٹی آف انڈیا نے 1974 تک ان کی خدمات سے بھر پور استفادہ کیا اور پھر وہ الیکٹرانک کمیونیکیشن انجینئرنگ کالج عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے ۔ بعد ازاں عظمت اللہ سعودی عرب کی آرامکو میں ملازمت کرتے رہے اور پھر کنگ سعود یونیورسٹی کے کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ نے ان کی خدمات حاصل کرلیں ۔ سعودی عرب جانے سے قبل ہی سیرامک پر کمپیوٹر کے ذریعہ ممتاز شخصیتوں کے پورٹریٹ بنانے شروع کردئیے تھے چنانچہ اس وقت آئی بی ایم ( انٹرنیشنل بزنس مشین کارپوریشن ) نے انہیں کمپیوٹر آرٹسٹ کا خطاب عطا کیا ۔ آج وہ سواروسکی نگینوں کو استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر پورٹریٹس بنا رہے ہیں ۔
سیرامک آرٹ سے کرسٹل آرٹ تک اپنے سفر کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ نگینے ہر دور میں شہنشاہوں ، بادشاہوں ، حکمرانوں ، امراء اور عام و خاص کی نظروں کو چکا چوند کرتے رہے کیوں کہ نگینوں اور قیمتی پتھروں کی چمک انہیں عزت و عظمت جا و جلال اور شان و شوکت کا احساس دلاتی رہتی ہے ۔ جناب سید عظمت اللہ کے مطابق نگینوں اور قیمتی پتھروں کو مختلف آرٹسٹوں نے نت نئے انداز میں کبھی سونے کے تو کبھی چاندی کے زیورات میں جڑتے ہوئے اس کی قدر و منزلت میں چار چاند لگائے چنانچہ انہوں نے بھی موجودہ دور میں فیشن کی دنیا کی مشہور آسٹریائی کمپنی Swarovosky کے نگینوں کا استعمال شروع کیا ۔ سواروسکی نگینوں کی یہ خوبی ہے کہ ان کی چمک دمک ماند نہیں پڑتی ۔ ایک خوشحال زندگی کی طرح اس میں چمک باقی رہتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران جس طرح سیرامک پر تیار کردہ ان کے پورٹریٹس کی شاہی خاندان سے لے کر حکومتی عہدیداروں اور تہذیبی و ثقافتی ادارے قدر کیا کرتے تھے ۔ اب ان کے کرسٹل آرٹ کو بھی ساری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ نگینوں کا یہ آرٹ اگرچہ مہنگا ہے لیکن باذوق شخصیتیں ہی اس کی قدر دانی کرسکتی ہیں ۔ جناب سید عظمت اللہ ہمیشہ خود کو نئے نئے تجربات میں مصروف رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ
وہ کرسٹل آرٹ کے فن کو امریکی ڈائمنڈ AD میں بھی آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دنیا میں نگینوں کو اس طرح کی جدت سے کسی اور نے پیش نہیں کیا ۔ اسے ’ جیول آرٹ ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ سیرامک اور کرسٹل آرٹ سے اپنی دلچسپی سے متعلق انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے 70 کے دہے میں اور 1985 کے دوران کمپیوٹر سے انہوں نے آرٹ کی ابتداء کی تھی اور آئی بی ایم نے اسے تسلیم کیا تھا ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آرٹ کے ان نمونوں کو آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے قبول کرتے ہوئے دہلی کے نہرو میوزیم میں محفوظ کروایا ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں جب انہوں نے سیرامک آرٹ کی ابتداء کی اس وقت شاہی خاندان بشمول شہزادوں ، وزراء ، گورنرس نے اس کی غیر معمولی پذیرائی کی متمول عرب صنعت کار شہزادہ ولید بن طلال بن عبدالعزیز نے ان کے سیرامک آرٹ کو ریاض کے میوزیم میں محفوظ کروایا ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سیرامک آرٹ کے نمونے ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کے 6 بھائیوں ، شہزادوں اور گورنروں کے علاوہ مختلف ممالک کے سربراہوں کو پیش کئے گئے ۔ امیر کویت ، ولیعہد کویت کے علاوہ پرنس چارلیس نے بھی ان کے فن کی ستائش کی ہے ۔ کرسٹل آرٹ کے بارے میں سید عظمت اللہ بتاتے ہیں کہ ابتداء میں کافی مشکلات پیش آئیں ۔ پہلے چینی نگینے استعمال کئے گئے لیکن انہوں نے دیکھا کہ ان نگینوں میں رنگوں کا بہت فرق ہے ایسے میں انہوں نے سواروسکی نگینوں کا استعمال شروع کردیا حالانکہ یہ بہت مہنگے ہوتے ہیں لیکن ان کی کوالیٹی کا کوئی جواب نہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ آج وہ جو کام کررہے ہیں اس سے پہلے کسی بھی آرٹسٹ نے اتنی باریکی اور خوبصورتی سے نگینوں کو آرٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ سید عظمت اللہ جہاں ایک اچھے آرٹسٹ ہیں وہیں ایک اچھے انسان بھی ہیں ۔ ان کے تین فرزند ہیں بڑا لڑکا ڈاکٹر سید سعادت اللہ کنگ خالد یونیورسٹی کے کالج آف ڈینسنٹری میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہے ۔ دوسرا لڑکا سید خالد عظمت اللہ ایر کرافٹ انجینئر اور تیسرے فرزند سید ہدایت اللہ ہائی ٹیک سٹی میں اچھے عہدہ پر فائز ہیں ۔۔