سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ

سید زبیر ہاشمی، مدرس جامعہ نظامیہ

مالک کُل اﷲ سبحانہ وتعالیٰ انسان کو اس دنیا میں اپنی عبادت کے مقصد کیلئے بھیجا ہے یقینا یہ ایک ایسا عظیم موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا ہر مسلمان کے لئے بے حد لازم و ضروری ہے۔ جب تک اﷲ تعالیٰ کو حاضر و ناظر سمجھ کر عبادتیں کرینگے تب تک وہ ظِلِّ الٰہی میں بڑے سکون و فرحت کے ساتھ زندگی گزارتے رہیں گے۔ یہی چیز ہمیں اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک زندگیوں میں ملتی ہے۔ یعنی زندگی کو غنیمت جاننا، طاقت و قوت کا اسلام کی راہ میں صحیح استعمال کرنا، نرمی کے ساتھ پیش آنا، مخالفین اسلام کا منہ توڑ جواب دینا یہ سب صحابہ عظام رضی اﷲ عنہم میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ انہیں صحابہ میں ایک عم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، سیدالشہداء حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔
نام: حمزہ بن عبد المطلب کنیت: ابوعمارہ

حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ عمر میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے تقریبا دویا چار سال کے بڑے تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی رضاعی ماں ثوبیہ {جو ابولہب کی آزاد کردہ باندی } تھیں،اس طرح سے امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ہیں۔ آپ رضی اﷲ عنہ کو سیدالشہداء کہا جاتا ہے۔ جب آپ رضی اﷲ عنہ مذہب اسلام سے وابستہ ہوئے تو اسلامی تحریک کو ایک زبردست تقویت عطا ہوئی۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ اسلام قبول کئے دراصل یہ دعائے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نتیجہ تھا۔ اور آپ رضی اﷲ عنہ کے اسلام کی دولت سے مالامال ہونے کا ایک بڑا بہترین واقعہ رونما ہوا ہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حق گوئی، جرأت اور بے باکی میں آپ کی شخصیت کتنی اثر دار تھی۔ ملاحظہ ہو:

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تقریبا چھ سال تک تبلیغ اسلام کی ذمہ داری انجام دیتے رہے، لیکن کفار مکہ و قریش کے اکثر لوگ نہ صرف سن کر اَن سنی کرتے، بلکہ شہرمکہ کو قریۂ جبر {زبردستی} بنا رکھا تھا اور مسلمانوں پر جو کم تعداد میں تھے ایک طویل زندگی تک تنگ کیا جاتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بھی بنایا گیاتھا {نعوذباﷲ} سارے مکہ معظمہ کی فضاآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خون کی پیاسی تھی۔ حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ ابھی مشرف اسلام نہیں ہوئے تھے، وہ {رضی اﷲ عنہ} شمشیر، شکار، تفریح اور تیراندازی کے مشاغل میں اس قدر مصروف تھے کہ دعوت اسلام پر غور و فکر کا موقع و فرصت ہی نہیں مل سکی۔

ایک مرتبہ آقائے دوجہاں حضور علیہ التحیۃ و الثناء کا کوہِ صفا کے مقام سے گزرہوا۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم لوگوں کو دین حق کی طرف دعوت دے رہے تھے کہ اُدھر سے ابوجہل بھی نکلا۔ حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُس {ابوجہل} نے دیکھا تو آپے سے باہر ہوگیا۔وہ بد بخت اسلام اور پیغمبر اسلام حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ بولنے لگا، مگر آقائے دوجہاں علیہ التحیۃ والثناء کی پیشانی مبارک پر ایک بھی نشان و شکن ظاہرنہیں ہوا۔ ابوجہل بکتا رہا، نازیبا الفاظ استعمال کرتا رہا ایسا محسوس ہورہا تھا گویا گندی زبان سے کانٹے گر رہے تھے۔اس بدبخت نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جسمانی اذیت کا نشانہ بھی بنایا یہاں تک کہ گالیاں بھی دینے لگا، لیکن تاجدار کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم مبارک لب پر ایک حرف شکوہ تک نہیں آیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم خاموشی اختیارکئے اور اُس بدبخت کے نازیبا الفاظ پر مکمل صبر و تحمل سے کام لیتے رہے۔ ایک خاتون اپنے گھر میں بیٹھے یہ سب منظر دیکھ رہی تھی، جب سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ شکار سے لوٹے تو اس خاتون سے رہا نہ گیا اور سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ سے کہنے لگی : کاش آپ کچھ دیر پہلے یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے {حضور صلی اﷲ علیہ وسلم} سے کتنا برا سلوک کیا ہے، ان کی شان میں نازیبا الفاظ بھی استعمال کیا، تو حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ یہ سن کر بڑے طیش میں آگئے، غصہ سے چہرہ لال ہوگیا اور

یہ کہنے لگے: ابوجہل کی یہ جرأت کہ اُس نے میرے بھتیجے {حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم} کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیا ہے، یہ کہتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کعبۃ اﷲ میں پہنچے، ابوجہل کو دیکھا کہ کفار و مشرکین کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا ہے، حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ آقائے دوجہاں حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کے دشمن ابوجہل کو دیکھ کر غصہ میں اور اضافہ ہوگیا اور اس کی شرارت، بدبختی اور بدمعاشی کی سزا دینے کے ارادے سے اس کو مارنا شروع کئے یہاں تک اس کا سر پھٹ گیا۔ حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ بڑے جلال کی حالت میں آکر یہ کہنے لگے! اے ابوجہل تیری اتنی ہمت کہ میرے بھتیجے {حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم} کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیا اور بد سلوکی کیا۔

بس اتنا کہنا ہی تھا کہ اس کے بعد حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کا باطن ایمان کے نور سے روشن ہوگیا اور ان کے مقدر کا ستارا چمکنے لگا، اور آپ رضی اﷲ عنہ کے آنکھوں میں محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ظاہر ہونے لگی۔حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ ابوجہل سے کہنے لگے:
کیا تو میرے بھتیجے حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے؟ میں بھی ا ن کے دین پر ہوں اور میں وہی کہتا ہوں جو وہ {حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم} فرماتے ہیں، میرا راستہ روک سکتے ہو تو روک کر دیکھو۔{ابن ہشام}
zubairhashmi7@gmail.com